کابل:ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا ہے کہ امیرالمومنین سے متعلق آئندہ چنددنوں میں فیصلہ ہوگا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم افغانستان میں اسلامی حکومت چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں، کئی بارکہہ چکے،افغان سرزمین کسی کےخلاف استعمال نہیں ہوگی۔ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ کسی ملک میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ کسی کواپنے ملک میں مداخلت کی اجازت دیں گے۔
وائس آف امریکہ کے مطابق طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ حکومت میں کسی بھی عہدے کے خواہشمند نہیں۔ طالبان کے افغانستان کے تمام 34 صوبوں پر قبضے کے بعد اب ان کی حیثیت ایک مذہبی رہنما کے طور پر ہوسکتی ہے۔
طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ کابل میں حالات کنٹرول ہونے کے بعد ملا ہیبت اللہ دارالحکومت میں داخل ہوں گے۔ ان کے بارے میں یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ وہ اپنے پیشرو ملا محمد عمر کی طرح قندھار میں رہ کر ہی بطور امیرالمومنین حکومت کی نگرانی کریں گے۔
طالبان کے بانی اور سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر آئندہ کی طالبان حکومت میں اہم ہوسکتے ہیں ۔ انہیں صدر یا وزیر اعظم کا عہدہ دیا جاسکتا ہے، وہ خود بھی ایسے ہی کسی عہدے کے خواہشمند ہیں۔ ان کے علاوہ سیاسی دفتر کے رکن شیر محمد عباس استنکزئی اور سہیل شاہین کو بھی اہم عہدہ مل سکتا ہے۔
ملا عمر کے بڑے صاحبزادے ملا محمد یعقوب اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے صاحبزادے سراج الدین حقانی طالبان کے نائب امیر ہیں۔ بعض مبصرین ان دونوں کو نائب صدر یا نائب وزیرِ اعظم کے عہدے ملنے کی توقع ظاہر کر رہے ہیں۔
افغانستان کے مشرقی زون کے لیے طالبان کے مقرر کردہ گورنر عبد الکیبراورکوئٹہ شوریٰ کے رکن ملا عبد القیوم ذاکرکو آئندہ کے سیٹ اپ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان کے جنوبی خطے کے لیے طالبان کی فوج کے سابق سربراہ ملا عبدالرزاق بھی کسی اہم فوجی یا سیاسی عہدے پر تعینات ہو سکتے ہیں۔