رپورٹ :وجیہ احمد صدیقی:
مغربی میڈیا طالبان مجاہدین کی کامیابی پر نہایت حیران و افسردہ ہے۔ بلکہ مغربی میڈیا نے اپنا غصہ امریکہ پر نکالا۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل نے برطانوی فوجیوں کے تابوت کی تصویر شائع کی ہے جو افغانستان میں مارے گئے تھے اور اس پر یہ سرخی جمائی ہے کہ ’’یہ کس جہنم کے لیے مرے تھے؟‘‘ طالبان مجاہدین کی داڑھیوں والی تصویر شائع کرکے اس کے سامنے لکھا گیا ہے کہ ’’20 سال بعد انہی دنوں میں دھکیل دیا گیا، ہمارے بہادر ترجمانوں کو خوفزدہ کردیا گیا۔‘‘ ڈیلی میل نے یہ سوال کیا ہے کہ بتایا جائے کہ 457 برطانوی ہیروز جنہوں نے افغانستان میں جان دی، ان کے اہل خاندان کے سوالوں کا کیا جواب ہے؟ افغانستان میں برطانیہ کے 20 برسوں میں 22 ارب پائونڈ خرچ ہوئے ہیں۔457 فوجی مارے گئے ہیں۔ صرف 2009ء میں100 برطانوی فوجی مارے گئے تھے۔
ڈیلی میل نے مارے جانے والے فوجیوں کی تصاویر کو شائع کرکے برطانوی وزیر اعظم کا یہ جملہ دہرایا ہے کہ 20 سال میں حاصل کردہ کامیابیوں کو ضائع کردیا گیا ہے۔ آئرش ایگزامنر نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ طالبان کی واپسی کا مطلب کیا یہ سمجھا جائے کہ القاعدہ بھی واپس آگئی ہے؟ جیسن بروک نے لکھا کہ ’’افغان اسلامی جنگجوئوں نے ایک سپر پاور کو شکست دے دی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ طالبان نے نہایت تیزی کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے۔ برطانوی اخبار لکھتا ہے کہ افغانستان کے بارے میں برطانوی سیکریٹری دفاع نے کہا تھا انہیں خدشہ ہے کہ القاعدہ واپس آجائے گی۔
’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ نے سرخی جمائی ہے کہ کابل کے طالبان کے ہاتھوں میں جانے کے بعد مغرب فرار۔ رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کابل سے فرار کی مماثلت ویت نام کے شہر سائیگان سے ہے۔ جس کی امریکی وزیر خارجہ نے تردید کی ہے۔ ’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ نے لکھا ہے کہ طالبان نے نہایت آسانی سے اپنا قبضہ مکمل کرلیا اورہزاروں امریکی اور برطانوی، ایئر پورٹ کے انتہا پسندوں کے ہاتھ میں جانے سے پہلے بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ ’’گارڈین‘‘ نے لکھاکہ مغرب کا 20 سالہ مشن ایک ڈرامائی دن میں طالبان کے بندوق برداروں نے کابل میں ڈبو دیا اور ملک کا کنٹرول حاصل کرلیا۔
’’گارڈین‘‘ کی سرخی ہے کابل کا سقوط۔ ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ نے سرخی جمائی ہے کہ طالبان نے اقتدار حاصل کرلیا اورافغان صدر فرار۔ برطانوی اخبار ’’دی ٹائمز‘‘ نے سرخی دی ہے کہ فاتح طالبان نے کابل لے لیا اور صدر فرار۔ ’’دی ٹائمز‘‘ نے لکھا ہے کہ افغانستان ایک بار پھر طالبان کی حکمرانی میں جکڑ گیا ہے۔ مغرب کی پشت پناہی رکھنے والاصدر فرار، جنگجو صدارتی محل میں داخل ہوگئے اور اسلامی امارات کی کامیابی کا اعلان۔ ’’ڈیلی مرر‘‘ نے لکھا ہے کہ طالبان نے کابل واپس لے لیا۔ 600 برطانوی فوجی 6 ہزار برطانوی فوجیوں کو نکالنے کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکہ کو مورد الزام ٹہرایا ہے اورپارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔
برطانوی اخبار ’’ڈیلی ایکسپریس‘‘ نے لکھا ہے کہ کابل کے سقوط کے بعدمایوس اور پریشان برطانوی باشندوں کو نکالنے کے لیے برطانیہ کی کوششیں جاری ہیں۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلا لیا۔ امریکی اخبار ’’یو ایس اے ٹوڈے‘‘ نے لکھا ہے کہ افغانستان میں لڑنے والے سابق فوجیوں نے طالبان کی واپسی پر کہا ہے کہ کیا ہماری تمام قربانیاں ضائع ہوگئی ہیں؟ اخبار لکھتا ہے کہ 2300 امریکی اس جنگ میں مارے گئے اور20 ہزار زخمی اور معذور ہوئے، اس جنگ پر 2 کھرب 26 ارب ڈالر خرچ ہوئے اورکئی فوجی خاندانوں کو خاک اور خون میں ملنا پڑا۔ ہمیں کیا حاصل ہوا؟ بھارتی خبر رساں ایجنسی یو این آئی کے مطابق بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے کہا ہے کہ طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں بھارت کی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ے شماربے شمار بھارتی شہری بھی خطرے میں آگئے ہیں۔ لہٰذا وزیر اعظم نریندر مودی کو بتانا چاہیے کہ ان کی حکومت بھارتیوں کی محفوظ واپسی کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟
’’الجزیرہ‘‘ نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا بیان شائع کیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی شکست سے خطے میں امن کے قیام کا موقع ملے گا۔ انہوں نے طالبان کی جانب سے اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیے رابطہ کونسل کے قیام کا خیر مقدم کیا ہے۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے لکھا طالبان نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ ایک صحافی نے لکھا ہے کہ اس کے نتائج ہمیں امریکہ میں بھگتنا پڑیں گے۔ یہ بھی لکھا گیا کہ کابل ہمارے اندازوں اور توقع سے پہلے ہی طالبان کے ہاتھ میں چلا گیا۔