قیصر چوہان:
قومی کرکٹ ٹیم کے اسپنر یاسر شاہ سنگین نوعیت کے الزامات کی زد میں آگئے ہیں تاہم یاسر شاہ ان الزامات کا سامنا کرنے کیلیے تاحال منظرعام پرآنے سے گریزاں ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے وکیل محمد جمیل راہی کا کہنا ہے کہ چونکہ کیس سنگین نوعیت کا ہے۔ اس لئے ملزمان کے کسی وقت بھی ناقابل ضمانت وارنٹ نکل سکتے ہیں۔ یاسر شاہ اوران کے دوست پر زینب الرٹ بل کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور انہیں دس سے چودہ برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ادھر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یاسر شاہ صوابی میں موجود اپنے گھرگزشتہ دو ہفتوں سے نہیں آئے اور ان کا موبائل فون بھی مسلسل بند جارہا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے اپنی پریس کانفرنس سے قبل یاسر شاہ پر عائد الزامات کے حوالے سے بورڈ کے لیگل ایڈوائزر تفضل رضوی سے تفصیلی گفتگو کی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یاسر شاہ اس معاملے پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیگل ایڈوائزر تفضل رضوی کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لہذا اس معاملے پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے یاسر شاہ کو کسی قسم کی قانونی معاونت نہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ چیئرمین رمیز راجہ نے بدھ کے روز ٹیسٹ کرکٹر یاسر شاہ کے اسلام آباد میں 14 سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے واقعے کی ایف آئی آر میں نام آنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات پاکستان کے لئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ابھی صورت حال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ مگر وہ یہ کہنا چاہیں گا کہ یہ کھلاڑی پاکستان کے سفیر ہیں۔
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے وکیل محمد جمیل راہی نے اس کیس پر ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس سنگین نوعیت کا ہے اور ملزمان کے کسی وقت بھی ناقابل ضمانت وارنٹ نکل سکتے ہیں۔ ایک سوال پر انوں نے کہا کہ یاسر شاہ اور ان کے دوست پر زینب الرٹ بل کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ کیس کو تین ماہ کے اندر ہی نمٹانے کیلئے حکومت کی جانب سے ایک خصوصی ریسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی نگرانی کر سکتی ہے۔ تاہم ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اب تک اس کیس میں کوئی پیش رفت نہ ہونا سوالیہ نشان ہے۔ متعلقہ قانون کی شق کے تحت اگر پولیس افسر قانون کے مطابق اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو اس کا یہ اقدام قابلِ سزا جرم تصور ہو گا۔ لاہور ہائی کورٹ کے وکیل محمد جمیل راہی نے مزید کہا کہ زینب الرٹ بل کے تحت بچوں کے جنسی استحصال کے مقدمے میں دی جانے والی سزا کو 10 سال سے بڑھا کر 14 سال کرنے کی سفارش سامنے آئی ہے۔ جبکہ اس سنگین جرم کی معاونت کرنے والے افراد کو بھی اتنی ہی سزا دی جا سکتی ہے۔
ادھر قومی کرکٹ ٹیم کے اسپنر یاسر شاہ کے ایک قریبی ساتھی کرکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد یاسر شاہ کے گھر والے سخت خوف زدہ ہیں۔ یاسر شاہ صوابی میں موجود اپنے گھر گزشتہ دو ہفتوں سے نہیں آئے ہیں اوران کا موبائل فون بھی مسلسل بند جارہا ہے۔ قبل ازیں اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں یاسر شاہ اوران کے دوست کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
مقدمہ متاثرہ لڑکی کی خالہ کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کے مطابق متاثرہ لڑکی نے کہا ہے کہ یاسر شاہ کے دوست فرحان نے گن پوائنٹ پر زیادتی کی اور اس کی ویڈیو بھی بنائی۔ فرحان اور یاسر شاہ نے دھمکی دی کہ اگر کسی کو بتایا تو ویڈیو وائرل کر دیں گے اور جان سے بھی مار دیں گے۔ یاسر شاہ نے کہا کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹر ہے اور شکایت کی تو اسے (متاثرہ لڑکی کو) مقدمے میں پھنسا دے گا۔
متاثرہ نے درخواست میں بتایا کہ واٹس ایپ پر یاسر شاہ کو اس بارے میں بتایا تو آگے سے انہوں نے مذاق اڑایا اور کہا کہ انہیں کمسن لڑکیاں پسند ہیں۔ پولیس کو اطلاع دی تو یاسر شاہ نے فلیٹ اور18 سال کی عمر تک اخراجات اٹھانے کی پیشکش کی۔ متاثرہ لڑکی کا یہ بھی کہنا تھا کہ یاسر شاہ اور فرحان کمسن لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھنسا کر ان کے ساتھ زیادتی کرتے اور ان کی ویڈیوز بناتے ہیں۔