کراچی:سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو پیش نہ کرنے پرآئی جی سندھ کامران فضل کو کام سے روک دیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرہ کے مبینہ اغوا سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔عدالتی حکم کے باوجود پولیس دعا زہرہ کوپیش کرنے میں ناکام رہی۔عدالت نے آئی جی سندھ کامران فضل کو کام سے روکتے ہوئے ان سے چارج واپس لینے کاحکم دے دیا۔
عدالت نے دعا زہرہ کیس میں تحریری فیصلے میں کہا کہ آئی جی سندھ کامران فضل نے غیرحقیقی رپورٹ پیش کی جو مسترد کی جاتی ہے۔ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کو دیا جائے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اپنی رائے دے کہ کامران فضل اس عہدے کے اہل ہیں یا نہیں۔ ہم بہترسمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کو انتظامیہ پرچھوڑ دیا جائے۔
قبل ازیں کراچی سے لاپتہ اور پسند کی شادی کرنے والی دعا زہرہ کیس میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت میں بیان دیا کہ دعا زہرہ مانسہرہ کے قریب کسی مقام پرہے ،پولیس سے کوئی ان کی مدد کررہا ہے ، چھاپے کی اطلاع لیک ہو جاتی ہے ۔
کراچی سے لا پتہ ہونے والے دعا زہرہ کے کیس میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ دعا زہرہ کی بازیابی کیلئے ہر بار چھاپے کی اطلاع لیک ہو جاتی ہے ، پولیس سے کوئی ان کی مدد کر رہا ہے ، ڈی آئی جی ہزارہ کو طلب کرکے رپورٹ لیں ۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ڈی آئی جی ان کی مدد کر رہے ہیں ؟، کیا دوسرے صوبے کی پولیس بھی ہمارے دائرہ کار میں آتی ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ڈی آئی جی مدد کر رہا ہے ، پولیس والے او وکلا ان کی مدد کر رہے ہیں ۔ عدالت نے استفسارکیا کہ کیا ہم ڈی آئی جی،ایس ایس پی کو حکم دے سکتے ہیں ۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ وہاں کے افسران آئی جی سندھ کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔ جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس دیے کہ یہ ہمارا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ، ایک بچی لا پتہ ہے ، آپ چاہتے ہیں کہ اپ کا کام وہاں سے ڈی آئی جی کریں ؟، کل کہیں گے کہ افغانستان سے سگنل آرہے ہیں توہم کیا کرینگے؟، ہم نے ہر طرح کی رعایت دی ہے ۔ جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ کیا صوبے کی پولیس اتنی نا اہل ہو چکی ہے ۔