برطانوی حکومت نے شیرِ میسور ٹیپو سلطان کی تلوار بھارت بھجوا دی ۔ شہید ٹیپو سلطان کی یہ تاریخی تلوار بھارتی ارب پتی تاجر وجے مالیا نے نیلامی میں لندن کے عجائب گھر سے خریدی تھی۔
واضح رہے کہ برطانوی عجائب گھر غیر منقسم ہندوستان اور دیگر ممالک سے لوٹے جانے والے نوادرات اور قیمتی تاریخی اشیا سے بھرے پڑے ہیں۔ کوہ نور ہیرے سے بادشاہوں اور راجوں، مہاراجوں کی تلواروں سمیت تاج، تخت، طلائی و نقرئی ظروف، قیمتی پتھروں، زیورات، شاہی لباس، طلائی سکوں اور قسم ہا قسم کے مخطوطات آج برطانوی عجائب گھروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ کوہ نور ہیرے کو بھارتی، افغان اور پاکستانی حکومتوں نے سفارتی و عدالتی چینل سے واپس لینے کیلئے کئی بار کوششیں کی ہیں۔ لیکن برطانوی حکومت نے قانونی اڑچنوں کا سہارا لے کر دنیا کے اس قیمتی ہیرے کو واپس کرنے سے صاف انکار کردیا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق نوآبادیاتی دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانوی حکومت کے تحت راج نے منظم جرائم کے تحت کم و بیش لاکھوں قیمتی اشیا، سکے، لباس، ہتھیار اور قیمتی پتھر ہتھیائے اور انہیں بحری جہازوں پر لوڈ کرکے سلطنت برطانیہ بھیجا گیا۔ جہاں یہ قیمتی نوادرات اور اشیا میوزیمز اور سرکاری توشہ خانوں کی ملکیت بنا دیئے گئے۔ کوہ نور ہیرا براہ راست ملکہ وکٹوریہ کو دیا گیا جو مختلف ذرائع سے ہوتا ہوا اس وقت ملکہ برطانیہ ایلزبتھ کے تاج میں جڑا ہوا جگمگا رہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق گلاسگو میوزیم میں موجود سینکڑوں ہندوستانی قیمتی اشیا، ہتھیار اور نوادرات میں سے ابتدائی طور پر پچاس نوادرات کو واپس بھارت بھیجنے کا مطالبہ مان لیا گیا ہے۔ جس میں شہید ٹیپو سلطان کی قیمتی تلوار بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ چند سال قبل بھارتی بزنس مین وجے مالیا لندن میں ایک عجائب گھر میں موجود ٹیپو سلطان کی ملکیت قیمتی شمشیر کو مخصوص نیلام گھر کی بولی میں سب سے زیادہ بولی دے کر خرید چکے ہیں اور اس وقت یہ تلوار وجے مالیا کے توسط سے بھارت پہنچ چکی ہے۔ میڈیا گفتگو میں اس تلوار کے خریدار وجے مالیا کا کہنا تھا کہ وہ اس تلوار کو ہر قیمت پر اس کے مالک کی سرزمین پر واپس لانا چاہتے تھے۔ قیمتی نقش و نگار سے مزین اس تلوار کی دھار سے انگریز خوفزدہ رہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے سازشوں سے’’ میسور کا شیر‘‘ کہلائے جانیوالے اس با عمل و باکردار مسلمان بادشاہ کو شہید کیا اور اس کی تمام اشیا لوٹ مار کے بعد لے گئے۔ یاد رہے کہ برطانیہ کا برٹش میوزیم جسے تاریخ کے موضوع پر دنیا کا سب سے بڑا میوزیم مانا جاتا ہے، اپنے پاس بے شمار ایسے نوادرات رکھتا ہے جو دیگر ممالک سے چھینے گئے ہیں۔ ایسی نادر اشیا میں سے سب سے زیادہ اشیا ہندوستانی بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں کی ملکیت تھیں۔ برطانیہ نے انڈیا سے چوری ہونے والے سات مجسموں اور تاریخی اہمیت کے فن پارے بھی واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ مجسمہ جات اور فن پارے گلاسگو کے عجائب گھر میں رکھے ہوئے ہیں۔
بھارتی ہائی کمیشن کی ٹیم کے کیلونگرو آرٹ گیلری اور میوزیم کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کے بعد ان نوادرات کے بھارت آنے کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔ خیال رہے کہ برطانیہ سے بھارت لائے جانیوالے نوادرات آنے کا یہ پہلا واقعہ ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس کے بعد متحدہ ہندوستان سے چوری کر کے برطانیہ لے جانیوالے مزید نوادرات بھی واپس لائے جاسکیں گے، جن کی ابتدائی تعداد پچاس بتائی جاتی ہے۔ برطانوی میڈیا اور بھارتی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان نوادرات میں 14 ویں صدی کے پتھر کے مجسمہ جات اور 11 ویں صدی کے پتھروں کے پینلز شامل ہیں۔ ٹیپو سلطان کی تلوار کو 1905ء میں حیدرآباد کے عجائب گھر سے چوری کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسے برطانوی جنرل آرچی بالڈ ہنٹر کو فروخت کر دیا گیا۔ یہ تمام چیزیں گلاسگو میوزیم کو بعد ازاں جرم کا ثبوت مٹانے اور مسروقہ قرار دینے سے روکنے کیلئے گفٹ کردی گئی تھیں۔ گلاسگو میوزیم نے ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ یہ تمام فن پارے اور مجسمہ جات کان پور، کول کتہ، بہار، اجین اور حیدرآباد دکن سمیت لکھنئو سے لائے گئے تھے۔ ان قیمتی و تاریخی نوادرات میں سے کئی ایک ہزار سال پرانے تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کیلونگرو میں ایک تقریب میں یہ نوادرات بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا۔ نوآبادیات اور لوٹ مار کی بدولت ہندوستان کی ثقافتی اشیا کا بڑا حصہ ہندوستان سے اٹھایا گیا تھا۔
یاد رہے کہ نوادرات کی واپسی میں آنا کانی کرنیوالی برطانوی حکومت کے قوانین میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی نوادرات چوری نہیں ہوتے ہیں تو اسے واپس دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب کبھی پاکستانی، افریقی یا بھارتی حکومت کی جانب سے برطانیہ سے نوادرات کی واپسی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو برطانوی حکام یہ بہانہ کردیتے ہیں کہ نوادرات کی چوری کی کوئی رپورٹ نہیں ہے اور اس حوالہ سے زیادہ تر دستاویزات تباہ ہو گئیں۔ اس لیے یہ ثابت کرنا کہ ہندوستانی نوادرات غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے تھے، تقریباً ناممکن ہے۔ یعنی قسم کے کوئی نوادرات اور دستاویزات اور مخطوطات سمیت قیمتی اشیا، ہتھیار وغیرہ واپس نہیں کئے جاسکتے۔ برٹش میوزیم میں اس وقت کم و بیش 80 لاکھ دستاویزات، قیمتی نوادرات موجود ہیں۔ لیکن ان کا بڑا حصہ چوری کرکے مختلف کالونیوں سے لایا گیا تھا، جس میں سب سے زیادہ قیمتی اشیا ہندوستان سے چرائی اور لائی گئی تھیں۔
جنوبی افریقہ سے لے کر ہندوستان اور آسٹریلیا سے لے کر نائیجیریا تک نہ صرف وہاں کے وسائل اور دولت کو لوٹا گیا بلکہ ثقافتی نوادرات اور آثار قدیمہ کو چوری کرکے برطانوی بحری جہازوں کی مدد سے لندن بھیجا گیا۔ اور یہی نوادرات آج برطانوی ملکیت بنی ہوئی ہیں۔اس تاریخی و ثقافتی لوٹ مار سے حاصل کیے گئے بیشتر مال کا ٹھکانہ برٹش میوزیم بنا جسے 1753ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مارچ 2000ء میں نائیجیریا کے شاہی خاندان نے غیر قانونی طور پر لوٹے گئے تمام ثقافتی نوادرات کی واپسی کا باضابطہ مطالبہ کیا۔ لیکن برٹش میوزیم ایسی کسی بھی درخواست کو خاطر میں نہیں لایا۔ کیونکہ برٹش میوزیم ایکٹ 1963ء کے تحت وہ نوادرات واپس کرنا ہی نہیں چاہتا۔ یاد رہے کہ مسروقہ نوادرات میں سے ایک ٹیپو سلطان کی سونے کی انگوٹھی بھی ہے۔ اکتالیس گرام وزن والی اس انگوٹھی میں نو قیمتی پتھر جڑے ہیں۔ ٹیپو سلطان برطانوی استعمار کیخلاف راکٹ کے ابتدائی ورژن بنانے کیلئے مشہور تھے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت نے ٹیپو سلطان کا بیش بہا خزانہ لوٹا اور اس کو لندن بھیجا۔ برطانوی میوزیم میں سکھ فرماں روا مہاراجا رنجیت سنگھ کا سونے کا تخت بھی چرائی ہوئی قیمتی اشیا اور برطانوی عجائب گھروں کی زینت میں شامل ہے۔
رنجیت سنگھ نے 1820ء کے بعد کسی وقت سنار حافظ محمد ملتانی کو اپنا تخت بنانے کا حکم دیا تھا، جب اس تخت کو تیار کیا گیا تو دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مہاراجا رنجیت سنگھ اس طلائی تخت پر کم کم براجمان ہوتا تھا اور ٹانگیں پسار کر فرش پر بیٹھ جاتا تھا۔ 1849ء میں پنجاب کے الحاق کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے تخت پر ریاستی ملکیت کا دعویٰ کیا اور اس تخت کو زبردستی میوزیم میں رکھنے کیلئے لندن بھیجا گیا تھا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے قیمتی زیورات لاہور میں نیلام ہوئے۔ لیکن طلائی تخت کوبراہ راست لندن بھیج دیا گیا۔ 1879ء میں، تخت کو کنسنگٹن کے وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم میں منتقل کر دیا گیا جہاں یہ عوامی نمائش کیلیے موجود ہے۔