ارشاد کھوکھر/ محمد قاسم:
ملک بھر میں آٹے کے نرخوں کا معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ غریب ابھی سے روٹی کے لیے ترسنے لگا ہے۔ آٹے کے نرخوں میں مسلسل اضافے کا جو رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس سے فی کلوگرام آٹے کے نرخ 150 روپے تک ہو سکتے ہیں۔ آٹے کے نرخوں میں اضافے کی جو وجوہات سامنے آئے ہیں۔ ان میں حکومت کی جانب سے آئندہ سیزن کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کا بیوپاریوں، بروکرز پر مشتمل بے لگام ذخیرہ اندوز مافیا نے ابھی سے فائدہ اٹھاکر اپنی تجوریاں بھرنا شروع کر دی ہیں۔
آٹے کے نرخوں میں اضافے کے دیگر اسباب میں سرکاری گندم پر فی بوری کے حساب سے کمیشن مافیا کی جانب سے رشوت بٹورنے، سرکاری گندم اور فلور ملوں اور آٹا چکیوں میں تقسیم کرنے کی غلط پالیسی، سرکاری شعبے میں گندم کے ذخائر کم ہونے سمیت دیگر اسباب شامل ہیں۔ جس کے باعث سندھ میں فی کلوگرام آٹے کے نرخ 110 روپے سے 125 روپے تک، خیبرپختون اور بلوچستان میں 110 روپے سے 130 روپے اور پنجاب میں فی کلوگرام آٹے کے نرخ 105 روپے سے 115 روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ آٹے کے نرخوں پر کنٹرول کرنے کا واحد راستہ ملک بھر میں آئندہ سیزن کے دوران گندم کی بمپر فصل رہ گیا ہے۔ جس کے لئے عوام کو مارچ 2023ء میں گندم کی نئی فصل آنے تک مہنگے آٹے کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔
اس وقت کراچی کے فلور ملز مالکان گھروں میں اور چپاتی روٹی کے لئے استعمال ہونے والے فی کلوگرام ڈھائی نمبر آٹا 106 روپے ایکس مل نرخ کے حساب سے دکانداروں کو سپلائی کر رہے ہیں۔ جبکہ تندور کی سفید روٹی اور پراٹھے کے لیے استعمال ہونے والا میدہ اور فائن آٹا 114 روپے ایکس مل نرخوں کے حساب سے پہنچارہے ہیں۔ ریٹیل میں عوام کو ڈھائی نمبر آٹا فی کلوگرام 115 روپے تک اور میدہ فائن آٹا 125 روپے تک مل رہا ہے۔ جبکہ پیور چکی آٹے کے نرخ بھی 125 روپے سے کم نہیں۔ اندرون سندھ کے تمام اضلاع میں بھی فی کلو گرام آٹا 105 روپے سے 115 روپے تک فروخت ہورہا ہے۔ آٹے کے نرخوں میں اضافے کی اس وقت بنیادی وجہ اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخوں میں اضافہ ہے۔
کراچی کی اوپن مارکیٹ میں فی سو کلوگرام گندم کی بوری کے نرخ 9 ہزار 300 (فی کلوگرام 93روپے ) روپے ہوگئے ہیں۔ یہ وہی گندم ہے، جو بیوپاریوں نے رواں سیزن کے دوران فی سوکلو گرام ساڑھے پانچ ہزار روپے سے 5 ہزار 800 روپے تک خریدی تھی۔ وہی ذخیرہ شدہ گندم اب مہنگے داموں پر فروخت کر رہے ہیں۔ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ بیوپاریوں، بروکرز اور ذخیرہ اندوزوں پر مشتمل مافیا کا نیٹ ورک کسی ایک صوبے یا علاقے تک محدود نہیں۔ بلکہ ان کا نیٹ ورک کراچی سے لے کر پشاور، کوئٹہ، لاہور، راولپنڈی سمیت پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ جو ہرلمحہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ جہاں انہیں مارکیٹ میں زیادہ تیزی نظر آتی ہے، وہاں زیادہ گندم فروخت کرتے ہیں۔ ذخیرہ اندوز اس وقت سب سے زیادہ فائدہ اس بات سے اٹھارہے ہیں کہ سرکاری گندم کا اجرا ابھی مکمل طور شروع نہیں ہوا ہے۔
حکومت سندھ نے سرکاری گندم کا اجرا یکم اکتوبر سے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کا فائدہ بیوپاری اٹھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت سندھ نے آئندہ سیزن کے لئے فی سوکلوگرام گندم کی امدادی قیمت ساڑھے 4 ہزار روپے اضافے کے ساتھ 10 ہزار روپے اور حکومت پنجاب نے دو ہزار روپے اضافے کے ساتھ فی سو کلوگرام گندم کی امدادی قیمت ساڑھے سات ہزار روپے مقرر کرنے کا جو اعلان کیا ہے، اس کا ذخیرہ اندوزوں نے ابھی سے فائدہ اٹھانا شروع کیا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مارچ میں جب نئی فصل آئے گی تو اس کی قیمت زیادہ ہوگی۔ لیکن انتظامیہ نے انہیں کنٹرول کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ یکم اکتوبر سے سرکاری گندم کا جب اجرا شروع کرے گی تو اس سے عارضی طور پر آٹے کے نرخوں میں معمولی کمی آسکتی ہے۔ تاہم یہ کمی مستقل نہیں ہوگی۔ کیونکہ سندھ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں سرکاری گندم کے نرخ کم ہوتے ہیں تو سندھ کے محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو مخصوص کوٹہ کے تحت دی جانے والی گندم پر فی بوری کے حساب سے اپناکمیشن طے کرتا ہے۔ جس کے بدلے میں فلور ملز مالکان کو 90 فیصد سے زائد آٹا اوپن مارکیٹ میں گندم کی نرخوں کے حساب سے فروخت کرنے کی چھوٹ دی جاتی ہے۔
باقی پانچ سے دس فیصد تک آٹا خصوصی اسٹالوں اور بچت بازاروں میں پہنچایا جاتا ہے۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ حکومت جب تک آٹے کے ایک نرخ مقرر نہیں کرے گی۔ تب تک عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ سارا فراڈ سرکاری گندم سے تیار ہونے والے آٹے کے نرخ الگ ہونے اور باقی گندم سے تیار ہونے والے آٹے کے نرخ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ فلور ملز مالکان جب فی بوری گندم پر کمیشن ادا کرتے ہیں تو اس کے بدلے میں انہیں سرکاری گندم سے تیار ہونے والا آٹا بھی اوپن مارکیٹ کے نرخوں پر سپلائی کرنے کی چھوٹ دی جاتی ہے۔
حکومت دکھاوے کیلیے سرکاری آٹے کے نرخ جو مقرر کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں فی کلوگرام آٹے کے نرخ اگر 10 روپے بھی بڑھاکر آٹے کے نرخ دو، دو کے بجائے ایک ہی نرخ مقرر کرے تو اس صورت میں عوام کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوگا کیونکہ محکمہ خوراک کی سرکاری گندم کی تقسیم کی پالیسی ہی غلط ہے۔ کیونکہ کمیشن بٹورنے کے چکر میں غیر فعال، بند اور جزوی طور پر چلنے والی فلور ملوں و آٹا چکیوں اور زیادہ گندم کی پسائی کرنے والی فلور ملوں کو بھی کوٹہ کے تحت یکساں مقدار میں گندم جاری کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے غیر فعال اور جزوی طور پر چلنے والی فلور ملوں کے مالکان رعایتی نرخوں پر کوٹہ کے تحت ملنے والی سرکاری گندم اوپن مارکیٹ کے نرخوں کے حساب سے گندم کی زیادہ پسائی کرنے والی فلور ملوں کو بیچ کر گھر بیٹھے مال کماتے ہیں۔ جس کی وجہ سے رعایتی نرخوں والی سرکاری گندم کا عوام کے بجائے فلور ملز مالکان اور محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کو فائدہ ہوتا ہے۔
آٹے کے نرخوں میں اضافے کی ایک وجہ آٹے اور گندم کی پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے علاقوں میں اسمگلنگ بھی ہے۔ یہ اسمگلنگ بلوچستان کے چمن بارڈر اور خیبرپختون سے ملحقہ افغانستان کے بارڈر کے ذریعے ہوتی ہے۔ وسطی ایشیا کے ممالک میں پاکستان کے مقابلے میں گندم کے نرخ کم ہونے کے باعث افغانستان کے زیادہ تر علاقوں میں گندم اور آٹا ان ممالک سے آتا ہے۔ تاہم پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے علاقوں کو پاکستان میں آٹے اور گندم کے نرخ زیادہ ہونے کے باوجود وسطی ایشیا کے ممالک سے آنے والی گندم سے اس لئے سستی پڑتی ہے کہ اس میں بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹیشن کا ہے۔ جہاں تک آٹے کے نرخوں کی بات ہے تو بلوچستان کے سندھ کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں نصیرآباد ڈویژن ، سبی ڈویژن، لسبیلہ میں آٹے کے نرخ اندرون سندھ کے علاقوں کے تقریباً برابر ہوتے ہیں۔ جبکہ کوئٹہ، چمن، قلعہ عبداللہ، زیارت اور دیگر علاقوں میں آٹے کے نرخ پشاور کے نرخوں کے برابر ہوتے ہیں۔ ابھی بھی بلوچستان کے ان علاقوں میں فی کلوگرام آٹے کے نرخ 110 روپے سے 130 روپے تک ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں ماسوائے سبی، ڈیرہ مراد جمالی، اوستامحمد، جھل مگسی وغیرہ کے علاقوں میں گندم کی پیداوار ہوتی ہے۔ باقی پورے بلوچستان میں گندم کی پیداوار نہیں ہوتی۔ بلوچستان میں زیادہ تر گندم اور آٹا پنجاب اور سندھ کے علاقوں سے سپلائی ہوتا ہے۔ جن میں سے حب چوکی اور لسبیلہ وغیرہ کے علاقوں میں آٹا کراچی سے سپلائی ہوتا ہے۔
ملک بھر میں جو گندم کی پیداوار ہوتی ہے۔ ان میں سے 65 سے 70 فیصد پیداوار صوبہ پنجاب میں ہوتی ہے۔ پنجاب میں گندم کی پیداوار کا حب جنوبی پنجاب کے علاقے ہیں۔ ان علاقوں میں آٹے کے نرخ سب سے کم ہیں۔ جبکہ پنجاب میں سب سے زیادہ آٹے کے نرخ راولپنڈی ریجن میں ہیں۔ 70 فیصد گندم کی پیداوار کرنے والے صوبہ پنجاب میں بھی مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر آٹے کے نرخوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ بیوپاریوں اور ذخیرہ اندوزوں پر مشتمل مافیا ملک بھر میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ اب بھی پنجاب میں فی کلوگرام آٹے کے نرخ 105 روپے سے 115 روپے تک ہیں۔ باوجود اس کے کہ پنجاب حکومت نے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل تھوڑی بہت سرکاری گندم کا اجرا شروع کیا تھا۔ لیکن اس کا اثر بھی اس لئے نہیں ہو رہا کہ وہاں بھی گندم کے سرکاری اور اوپن مارکیٹ کے نرخ الگ الگ ہیں۔
اس صورتحال میں آٹے کے نرخوں پر کنٹرول کرنے کی بس ایک یہی امید رہ گئی ہے کہ آئندہ سیزن کے دوران ملک بھر میں گندم کی بمپر فصل ہو۔ کیونکہ آبادی کے لحاظ سے ہمارے ملک کی سالانہ گندم کی ضرورت تقریباً 2 کروڑ 80 لاکھ ٹن ہے۔ لیکن اس کے لئے بھی عوام کو مارچ 2023ء تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ابھی 15 اکتوبر کے بعد گندم کی فصل کی نئی بوائی شروع ہوگی اور مارچ میں فصل تیار ہوگی۔ جہاں تک گندم کی بمپر فصل کا تعلق ہے تو اس کے امکانات بالکل موجود ہیں۔ کیونکہ حالیہ سیلاب اور بارشوں سے تباہی ضرور ہوئی ہے۔ لیکن حکومت نے پانی کے اخراج کے لئے فوری موثر اقدامات کئے تو وہ بیراجی علاقوں والی زمین جنہیں نہروں کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے، نہ صرف ان علاقوں میں گندم کی پیداوار بہتر ہوگی۔ بلکہ کوہستان، تھرپارکر، روہی، چولستان سمیت بلوچستان کے وہ بارانی علاقے جن میں نہری سسٹم نہیں، ان علاقوں میں بھی گندم کی فصل سمیت جوار، باجرہ، مکئی وغیرہ کی بہتر پیداوار ہوگی۔ تاہم جہاں تک سستے آٹے کی بات ہے تو گندم کی بمپر فصل ہونے کے باوجود بھی آئندہ سیزن کے دوران بھی فی کلوگرام آٹے کے نرخ 100 روپے سے کم نہیں ہوں گے۔ کیونکہ حکومت سندھ نے فی کلوگرام گندم کی امدادی قیمت 100 روپے اور پنجاب میں 75 روپے رکھی ہے۔
پشاور سے نمائندہ ’’امت‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پشاور سمیت صوبہ خیبرپختون میں پنجاب سے آٹے کی رسد کم ہونے کے بعد غلہ مارکیٹ میں آٹے کا اسٹاک انتہائی کم رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے نرخ مزید بڑھ گئے ہیں۔ گزشتہ روز کے مقابلے میں 80 کلو آٹے کی بوری 8 ہزار 8 سو روپے سے بڑھ کر 9 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ بیس کلو آٹے کا تھیلا مزید 100 روپے اضافے کے ساتھ 2300 روپے تک یعنی فی کلوگرام 115 روپے تک جا پہنچا ہے۔ اسپیشل آٹا115 روپے فی کلو سے 120روپے کلو۔ چکی کا آٹا 100 سے 110 روپے۔ فائن آٹا 130 روپے تک فی کلو ہو گیا ہے۔ جبکہ آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث نانبائیوں نے بھی روٹی کے وزن میں کمی کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق سیلابی صورتحال کے باعث پنجاب سے آٹے کی سپلائی میں کمی آگئی ہے۔ جس کے باعث آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس حوالے سے جنرل سیکریٹری آٹا ڈیلرز ایسوسی ایشن صداقت حسین نے صوبائی حکومت سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ غلہ مارکیٹ میں آٹے کا اسٹاک انتہائی کم ہو گیا ہے۔ اگر پنجاب سے ترسیل شروع نہ ہوئی تو بحران سنگین ہو جائے گا جس کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گا۔ ادھر آٹے کے نرخ بڑھنے کے باعث نانبائیوں نے بھی روٹی کا وزن مزید کم کر دیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے چار مہینے قبل 135 گرام روٹی کی قیمت دس روپے سے بڑھا کر پندرہ روپے مقرر کی گئی تھی۔ تاہم آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافے کے باعث نانبائیوں نے سو گرام روٹی کی قیمت بیس روپے کرنے یا ایک سو پچاس گرام روٹی کی قیمت تیس روپے مقرر کرنے کی درخواست کی تھی۔ تاہم ضلعی انتظامیہ نے یہ مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ اس حوالے سے نانبائی ایسوسی ایشن کے رہنما جہانزیب خان کا کہنا ہے کہ آٹے کی بوری 9 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن ضلعی انتظامیہ حالات کے مطابق فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ اگر روٹی کی قیمت نہ بڑھائی گئی تو احتجاج کا راستہ اپنایا جائے گا۔
دوسری جانب آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث شہری رعایتی آٹے کیلئے رل گئے ہیں ۔ پشاور کی غلہ مارکیٹ سمیت دیگر علاقوں سے انتہائی مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ شہری علاقے سے تعلق رکھنے والے مسلم خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ 2 روز قبل انہوں نے اشرف روڈ سے بیس کلو آٹے کا تھیلا 2 ہزار روپے میں خریدا تھا۔ اب دوبارہ بازار کا رخ کیا تو بیس کلو تھیلے کی قیمت میں مزید 300 روپے بڑھا دیے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ سرخ آٹا بھی انتہائی مہنگا ہو گیا ہے۔ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ ایک طرف آئے روز مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب آٹے کی بھی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ 20کلوگرام آٹے کے نرخ ڈھائی ہزار سے 3ہزار روپے یعنی فی کلوگرام 150 روپے تک جاسکتے ہیں۔ کیونکہ مارکیٹ میں آٹے کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ صوبائی حکومت جلسوں کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی فکر کرے۔ نانبائی ایسوسی ایشن چارسدہ کے صدر ملک اقبال پائندہ خیل، تاجر اتحاد کے صدر افتخار زرگر، جنرل سیکریٹری حبیب ٹیلر، صلاح الدین شاکر اور دیگر نے کہا کہ آٹے کی قیمتوں میں آئے روز غیر معمولی اضافہ تاجروں کا معاشی قتل ہے۔ اس اضافے کے باعث بیس روپے روٹی فروخت کرنا مالی نقصان ہے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ آٹے کی قیمتوں میں کمی نہ کی گئی تو ضلع بھر میں ہڑتال کریں گے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت نے سبسڈائز سرکاری آٹے کی فروخت کے طریقہ کار اور مروجہ پالیسی کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے فلور ملوں کے مطالبے پر انہیں 9 فیصد کوٹہ دیدیا ہے۔91 فیصد آٹا ٹرکوں کے ذریعے ایم پی ایز کی سفارش پر ان کے حلقوں میں عوام کو فروخت کیا جائے گا۔ پشاور سمیت صوبہ بھر کے فلور ملز مالکان نے سرکاری آٹا ٹرکوں کے بجائے ڈیلرز کے ذریعے فروخت کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس بنیاد پر ایک دن کی ہڑتال بھی کی تھی۔ تاہم حکومت نے محکمہ خوراک کو ہدایت کی ہے کہ رعایتی آٹے کی فروخت کا مروجہ طریقہ کار تبدیل نہ کیا جائے۔
اسلام آباد کے نمائندہ ’’امت‘‘ کی جانب سے رابطہ کرنے پرآل پاکستان فلورملزایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری محمد یوسف نے ایک سوال پر کہا کہ جہاں تک گندم درآمد کرنے کی بات ہے تو وفاقی کابینہ نے نجی شعبے میں گندم درآمد کرنے کی منظوری دیدی تھی۔ لیکن بعد ازاں جب اس سلسلے میں جو سمری وزیراعظم میاں شہباز شریف کو ارسال کی گئی، وہ وزیراعظم ہائوس نے روک دی ہے۔ ان کے بقول، وہ سمری روکنے کی وجوہات کیا ہیں، اس کا کچھ پتہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں آل پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کم از کم تین خطوط حکومت کو لکھ چکی ہے۔ مگر حکومت کوئی جواب دینے کو تیار نہیں۔ اور یہ بھی نہیں بتایا جارہا کہ فلور ملوں کو گندم کیوں نہیں دی جارہی ہے۔ گندم امپورٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ صرف 15 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ باقی گندم کے ذخائر ملک میں موجود ہیں۔