اسلام آباد: ایون فیلڈ ریفرنس میں ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور محسن اختر کیانی نے مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ مریم نواز کی اپیل میرٹ پر سنیں گے ،انہوں نے اپنا کیس بنایا ہے کہ عدالتی فیصلے میں کیا قانونی سقم ہے ، اب آپ نے اس کا دفاع کرنا ہے ۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت نے لکھا کہ فیئر ٹرائل کا موقع ملنے کے بعد نوازشریف کو سز ا سنائی گئی ، مرکزی ملزم اب نہ عدالت کے سامنے ہے اور نہ ان کی اپیل موجود ہے ، نوازشریف کی اپیل ہمارے سامنے نہیں تو یہ مطلب نہیں کہ ان پر فرد جرم ٹھک ثابت ہوئی ہو گی،نوازشریف کی اپیل میرٹ پر نہیں عدم حاضری پر خارج کی گئی تھی ۔
دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر یہ کیسز بنائے گئے تھے ،جسٹس عامر نے کہا کہ ہم نے تو ٹرائل پروسیڈنگ کو دیکھنا ہے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ملزمان تو آج بھی اسی جگہ کھڑے ہیں کہ وہ ٹرسٹ ڈیڈ کو تسلیم کرتے ہیں ۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مختصر بتائیں کہ ان کے خلاف کیس کیا تھا ، ایک جملے میں مریم نواز کے خلاف کیس بتانا ہو تو کیا ہو گا ؟نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ مریم نواز نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی خریداری میں نوازشریف کی اعانت کی ،عدالت نے ریمارکس دیے کہ 1993 سے 1996 میں نوازشریف نے پراپرٹی ایکوائر کی تو آپ نے بتانا ہے مریم نواز نے مدد کی ،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ کیس نہیں کہ باپ نے بیٹی کو گفٹ کیا ہے ،مریم نواز نے نوازشریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے میں معاونت کی ،جسٹس عامر فارق نے استفسار کیا کہ آپ نے بتانا ہے مریم نواز نے کس انداز میں نوازشریف کی معاونت کی ، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم نواز نے والد کی جائیداد بنانے اور چھپانے میں معاونت کی ،جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے پھر بتانا ہے 1993 میں مریم نواز نے جائیداد لینے میں مدد کی ،یاتو آپ بتائیں مریم نواز کا کردار 1993 میں جائیداد لینے میں تھا ،یا پھر بتائیں ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر اس جائیداد کو بنانے میں 2006 میں مدد کی ۔
جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ خود کو بند گلی میں لے کر جارہے ہیں ،آپ کہتے ہیں 2006 میں ٹرسٹ ڈیڈ سے مریم نواز کا کردار شروع ہوتا ہے ،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اثاثے بنانے میں معاونت کی تو پھر ٹرسٹ ڈیڈ کیلبری فونٹ کو چھوڑ کر 1993 سے چلیں ،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم اس معاملے کو 2006 میں ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ لے کر چلیں گے ،جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پھر تو 1993 میں مریم نواز کا کوئی کردار نہیں ہوا۔
نیب نے کہا کہ 1993 سے 1996 کے دوران جب یہ پراپرٹیز خریدی جارہی تھیں اس میں مریم نواز کا کوئی کردار نہیں ،جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ تو نیب کا موقف ہے کہ مریم نوازکا 1993 میں پراپرٹیز خریدنے ،چھپانے میں کوئی کردار نہیں ؟نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی بالکل اسی طرح ہی ہے ،جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ہم اپنی سمجھ کیلئے پوچھ رہے ہیں ٹریک کلیئر کر رہے ہیں جس پر آپ نے جانا ہے ، نیب نے کہا کہ مریم نواز نے 2006 میں مدد اور معاونت کی ،جسٹس عامر نے کہا کہآپ کہتے ہیں نوازشریف نے 1993 میں اثاثے خریدے ، چھپائے ،آپ نے پھر شواہد سے ثابت کرنا ہے انہوں نے اپنے والد کی مدد اور معاونت کیسے کی ؟
مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ نیلسن اور نیسکول برٹش ورجن آئی لینڈ کے پاس رجسٹرڈ ہیں، امجد پرویز ایڈوکیٹ کا کہناتھا کہ نیلسن اور نیسکول نے 1993 ،1995اور 1996 میں اپارٹمنٹس خریدے، جسٹس عامر فاروق نے استفسارکیا کہ کیا ابھی ان اپیلوں سے یہ سوال متعلقہ ہے کہ یہ پراپرٹیز کیسے خریدی گئیں،اگر وہ پراپرٹیز خریدی گئیں تو پھر اس میں معاونت کا الزام آئے گا،ہم مفروضے پر نہیں جا سکتے، ہم نے حقائق کو دیکھنا ہے ،آپ نے ٹرائل کورٹ میں یہ ثابت کیا ہے تو وہ بتائیں۔
، جسٹس عامر کا نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ ، نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایسے کیسسز موجود ہیں کہ مرکزی ملزم بری ہو گیا مگر معاونت کرنے والوں کو سزا ہوئی، آپ دستاویزات سے نوازشریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کریں ،جسٹس عامر فارق نے کہا کہ ہر کیس کے الگ حقائق ہو تے ہیں، ہم جو کیس سن ررہے اس کے حقائق دیکھیں گے ، ہم نے اس کیس میں مریٹ پر فیصلہ نہیں دیا ، پہلے نیب نے یہ ثابت کرناہے کہ یہ پراپرٹیز نوازشریف نے خریدیں ۔
دوران سماعت وکیل امجد پرویز نے کہا کہ کیس کا فیصلہ رابرٹ ولیم ریڈلے کی رپورٹ پر منحصر ہے اور ماہر کی رپورٹ پرائمری نہیں ثانوی شہادت ہوسکتی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ عدالت اس معاملے کو کیلیبری فونٹ کے کیس سے دیکھے گی، عدالت نے نیب کو آئندہ سماعت پر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کردی۔