نواز طاہر:
صوبہ سندھ اور بلوچستان میں زرعی زمین اور فصلیں سیلاب سے تباہ ہونے کے بعد پنجاب میں یوریا کھاد کی قلت، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ سے فصلوں کی کاشت اور پیداوار دائو پر لگ گئی ہے۔ جس سے آئندہ چند ماہ میں شدید غذائی بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ کسان رہنمائوں نے اسلام آباد کے گھیرائو کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس جانب قابلِ ذکر اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔
واضح رہے کہ کھاد کی قلت اور بلیک مارکیٹنگ کیخلاف کسانوں کی تنظیموں نے ملک کے مختلف شہروں کے بعد اسلام آباد میں بھی مظاہرے کیے۔ تاہم وفاقی دارالحکومت میں ان کا احتجاج اس وعدے کے ساتھ موخر کرادیا گیا کہ وزیراعظم کی وطن واپسی کے بعد کسان تنظیموں کے نمائندوں کی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کروائی جائے گی اور ان کے مطالبات کا جائزہ لے کر جملہ مسائل کا حل تلاش کیا جائے گا۔ لیکن کسان تنظیموں کا لاہور میں احتجاج جاری رہا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے صوبے میں سرکاری نرخ پر کسی ایک جگہ بھی یوریا کھاد کی ایک بوری بھی دستیاب نہیں اور کسان سخت پریشان ہے۔ جبکہ بلیک مارکیٹ میں کھاد وافر موجود ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب میں چار لاکھ میٹرک ٹن یوریا کھاد کی طلب ہے۔ لیکن جولائی میں پنجاب کو دو لاکھ انہتر ہزار چھ سو پچانوے میٹرک ٹن کھاد فراہم کی گئی۔ جو مجموعی کھپت کی شرح سے پینتیس فیصد کم تھی۔
کسان بورڈ وسطی پنجاب کے صدر میاں راشد منہالہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پورے صوبے میں سرکاری نرخ پر کھاد صرف سرکاری عہدیداروں اور طاقتوروں کو ملتی ہے۔ باقی کھاد اسسٹنٹ کمشنرز، محکمہ زراعت کے افسران اور کھاد مافیا کی ملی بھگت سے کھاد مارکیٹ سے غائب کردی گئی ہے۔ حالانکہ کھاد موجود ہے اور بڑے بڑے ذخیرے پڑے ہیں۔ جہاں سے ڈیلر اور دکاندار سرکاری نرخ سے پچاس سے ستر فیصد اضافی قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ جسے خریدنا عام کاشتکار کے بس میں نہیں۔ ان حالات میں مکئی، آلو، گندم اور دیگر اجناس کی پیدوار انتہائی کم ہوگی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پنجاب میں ان دنوں یوریا کھاد کی کتنی مقدار کی ضرورت ہے تو ان کا کہنا تھا ’’ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ پنجاب کی کھاد کی مجموعی طلب کیا ہے اور اس وقت دستیاب کتنی ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ عام کسان یوریا کھاد کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے اور اسے کھاد نہیں ملتی۔ جبکہ بلیک مارکیٹ میں من مانے نرخ پر ہر جگہ مل جاتی ہے‘‘۔ کسان رہنما راشد منہالہ نے کھاد کے معاملے پر اسلام آباد کا گھیرائو کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
کسان رہنما اور پنجاب اسمبلی کے سابق رکن جاوید احمد چودھری نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان میں یا پنجاب میں کھاد کی قلت نہیں۔ بلکہ ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری کی وجہ سے عام آدمی کو سرکاری نرخ پر کھاد فراہم نہیں کی جارہی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’پاکستان میں کھاد بنانے کے پانچ بڑے کارخانے موجود ہیں۔ جنہیں حکومت ایندھن کی مد میں کسان کی سہولت کیلیے سبسڈی دیتی ہے۔ یہ کھاد وفاقی حکومت کی نگرانی میں صوبوں کو فراہم کی جاتی ہے اور صوبے محکمہ زراعت اور ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں کاشتکاروں کیلئے فروخت کرواتے ہیں۔
ہماری زمینوں کی کیفیت کے مطابق ایک بوری کھاد کے استعال سے فی ایکڑ پیداوار پندرہ سے بیس من، جبکہ تین بوری کھاد کے استعمال سے پچاس سے ساٹھ من فی ایکڑ پیداوار ہوتی ہے۔ عام کاشتکار ایک بار تو کھاد اصل قیمت سے چالیس پچاس فیصد زائد نرخ پر خرید سکتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ خریدنا اس کے بس میں ہی نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب پاکستان میں اپنی ضرورت کے مطابق کھاد پیدا ہوتی ہے تو پھر مصنوعی قلت کیوں پیدا ہوتی ہے اور عام کاشتکار کو کیوں نہیں ملتی۔ جب حکومت کی طرف سے کاشتکاروں کے مفاد میں کھاد بنانے والے کارخانوں کو جو سبسڈی دی جاتی ہے۔ اس سے پاکستان میں پوری دنیا کے مقابلے میں کم قیمت پر کھاد دستیاب ہونا چاہئے۔ لیکن یہ کھاد افغانستان سمیت مختلف ممالک میں اسمگل کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ افغانستان کے راستے پاکستانی کھاد بھارت میں بھی اسمگل ہوتی ہے۔ اور جب یہاں قلت پیدا ہوتی ہے تو وہی اسمگل شدہ کھاد دوبارہ مہنگے داموں پاکستان کو ہی فروخت کردی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ منافع خور بڑے بڑے اسٹوروں میں اسٹاک کرلیتے ہیں اور بلیک میں بیچتے ہیں۔ ان ذخیروہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی صورت میں فی ٹرک پچاس ہزار روپے تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ایک ٹرک سے منافع خور کم از کم پانچ لاکھ روپے اضافی کماتا ہے۔ لہذا اسے پچاس ہزار روپے جرمانہ اداکرنے میں کوئی نقصان نہیں‘‘۔
ایک سوال پر جاوید احمد چودھری کا کہنا تھا کہ ’’اصل بات یہ نہیں کہ وفاق اور پنجاب میں کوآرڈی نیشن کس حد تک ہے اور کس حد تک نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں نے کبھی ایسا طریقِ کار ہی نہیں بنایا کہ جس پیدوار پر کسان کے نام پر قومی خزانے سے سبسڈی دی جاتی ہے۔ وہ کسان تک کس طرح پہنچ سکتی ہے۔ درحقیقت حکومت موثر طریقِ کار بنانے کے بجائے یہ معاملہ بابوئوں پر چھوڑ دیتی ہے۔ جس سے کسان کی سبسڈی کارخانے دار اور ڈیلر کے پیٹ میں چلی جاتی ہے اور وہی اسمگلنگ بھی کرواتے ہیں اور بلیک مارکیٹنگ بھی کرواتے ہیں۔ آج تک حکومت نے ایسا طریقہ کار اختیار نہیں کیا کہ ہر بوری پر نمایاں نرخ درج ہو اور دیگر مارکیٹ آئٹمز کی طرح اس پر بار کوڈ بھی لگایا جائے۔ تاکہ معلوم ہوسکے کہ کھادکی کی بوری کہاں کتنے میں پہنچی۔ مزید یہ کہ یہ کھاد یونین کونسل کی سطح پر کاشتکاروں کی رجسٹریشن کرکے فراہم کی جائے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں جاوید چودھری نے کہا کہ غذائی بحران سے بچنے کیلئے فوری طور پر عام کاشتکار کو بیج اور ایک بوری فی ایکڑ کھاد مفت فراہم کی جائے۔ بصورتِ دیگر اگلے چند ماہ میں غذائی بحران سر اٹھا لے گا اور اس سے بھی کسان اور عام آدمی کچلا جائے گا۔ جبکہ مافیا تجوریاں بھرے گی۔
دوسری جانب پنجاب کے وزیر زراعت حسین جہانیاں گردیزی نے تصدیق کی ہے کہ عام کاشتکار کو یوریا کھاد کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اور سرکاری نرخ پر کھاد نہیں مل رہی۔ کیوں نہیں مل رہی؟ اس پر ان کا جواب خاموشی تھا اور اس کا ذمہ دار وہ سسٹم کو ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت سیلاب سے متاثرہ جنوبی پنجاب کے کاشتکاروں کو بیج اور کھاد کی فراہمی میں معاونت کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ جس پر عملدرآمد سروے مکمل ہونے کے بعد ہوگا۔ انہوں نے بارشوں کے نتیجے میں تباہ ہونے والی فصلوں کے مالک کاشکاروںکی معاونت کے حکومتی مجوزہ منصوبے کی بھی تصدیق کی۔ لیکن کھاد کی قلت دور کرنے اور بلیک مارکیٹنگ ختم کروانے کا جواب نہیں دیا۔