کراچی :رپورٹ:ارشاد کھوکھر: حکومت سندھ کے فیصلے کے تحت ریلیف فنڈ کی مد میں ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کرنے والے تقریباً 27 ٹریژری کے افسران اور ملازمین نے مذکورہ مد میں اپنی تنخواہوں میں کٹوتی نہ کرکے حکومت کو چکمہ دے دیا۔ صوبائی محکمہ خزانہ نے ایسے افسران و ملازمین کے خلاف انکوائری کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے بارشوں و سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے قائم کردہ ریلیف فنڈ کے متعلق احکامات جاری کئے تھے کہ صوبائی حکومت کے ماسوائے عدالتوں ، باقی تمام محکموں کے گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں میں سے دو دن کی تنخواہ، گریڈ 17 اور اس سے اوپر گریڈ کے افسران کی 5دن کی تنخواہوں کی کٹوتی کرکے مذکورہ رقم ریلیف فنڈ میں جمع کی جائے گی۔
صوبائی حکومت کے مذکورہ فیصلے کی روشنی میں تمام ٹریژری افسران اور پے رول کے امور کو دیکھنے والے افسران و عملے نے متعلقہ تمام اضلاع میں صوبائی ملازمین کو اگست میں ملنے والی جولائی کے مہینے کی تنخواہوں میں کٹوتی کردی تھی۔ لیکن صوبائی محکمہ خزانہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ضلع دادو ، ضلع جیکب آباد ، ضلع قمبر شہداد کوٹ ، ٹنڈومحمد خان کے 27 ٹریژری افسران و عملے نے اپنی تنخواہوں سے مذکورہ مد میں کٹوتی نہیں کی۔
ان میں ٹریژی آفس دادو سے تعلق رکھنے والے ایاز احمد جمالی ، اسرار احمد، فیض اللہ جمالی، عبدالرسول پنہور کے نام شامل ہیں۔ جبکہ ٹریژری آفس ضلع جیکب آباد کے 20 سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے مذکورہ مد میں کٹوتی نہیں کی گئی۔ ان میں الطاف احمد سومرو ، شوکت علی مغیری، عبدالرسول ابڑو، ارشاد علی، محمد حیات، نسرین مسیح، مظہر علی سومرو ، محمد عظیم ، دانش نور دایو، اسد اللہ، وسیم اللہ بھٹو، بدرالدین الرو، شاہنواز برڑو، شمیم مہر، سید ذوالقرنین شاہ، واحد حسین چانڈیو، پپو ، عنایت اللہ اور غلام رسول چانڈیو کے نام شامل ہیں۔ ٹریژری آفس ضلع قمبر شہداد کوٹ کے کمپیوٹر پروگرامر امان اللہ بھنڈ اور ضلع ٹنڈومحمد خان کے سب اکائونٹنٹ ولی محمد اور سب اکائونٹنٹ وصی الدین کے نام شامل ہیں۔ صوبائی محکمہ خزانہ نے حکومتی فیصلے کی خلاف ورزی کرنے پران افسران اور ملازمین کے خلاف انکوائری کے احکامات جاری کیے ہیں۔
واضح رہے کہ حیدرآباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد عدالتوں سے وابستہ افسران و ملازمین کی تنخواہوں سے مذکورہ مد میں کٹوتی ختم کی گئی تھی۔ جبکہ باقی ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کا معاملہ ابھی عدالت میں ہے۔