احمد نجیب زادے:
افریقا کے کئی ممالک میں روایتی مہنگے ایندھن اور لکڑی کے بجائے آتش فشاں سے نکلنے والے پتھروں سے دہکنے والے چولہے مقبول ہوگئے ہیں۔ یوگنڈا سمیت کئی ممالک میں یہ آتش فشاں پتھر ماحول دوست لیکن بے حد سستے ایندھن کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
دو برس تک کیلیے کارآمد چولہے کی قیمت ایک سو ڈالر سے تین سو پچاس ڈالر تک ہے۔ ان آتش فشانی پتھروں والے چولہوں کی تیار کنندہ مقامی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ آتش فشانی چولہے اس لئے بھی ماحول دوست ہیں کہ ان چولہوں میں روایتی ایندھن مثلاً کوئلہ یا لکڑی کا استعمال نہیں ہوتا۔ ان پتھروں کو جب چولہوں میں جلایا یا دہکایا جاتا ہے تو یہ چند لمحوں میں آگ فراہم کرتے ہیں اور لکڑی یا کوئلہ کی نسبت بالکل بھی دھواں نہیں دیتے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ ماحولیات کیلیے بھی نقصان دہ نہیں۔
’’ایکو، اِسٹوو‘‘ متعارف کروانے والی افریقی کمپنی کی ڈائریکٹر روز ٹوائن نے بتایا ہے کہ چولہے میں موجود آتش فشانی پتھروں کو بیٹری یا سولر سسٹم سے لگا کر بارہ وولٹ پنکھے کی مدد سے سیکنڈوں میں دہکادیا جاتا ہے اور پنکھے کی رفتار کو کنٹرول کرکے دہکتے پتھروں کا درجہ حرارت یا آنچ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس سولر نظام کی مدد سے ایک چارجنگ ڈیوائس کو بھی منسلک کیا گیا ہے۔ تاکہ اس کی مدد سے رات میں ایل ای ڈی لائٹس سے روشنی حاصل کی جاسکے یا کسی بھی وقت اپنا موبائل یا اسمارٹ فون چارج کیا اور لیپ ٹاپ چلایا جاسکے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یوگنڈا کی حکومت کے زیرانتظام ایک این جی او نے ان ماحول دوست چولہوں کو عوام میں متعارف کروانے کیلئے دارالحکومت کمپالاکے ایک عوامی مرکز پر ڈھائی سو مختلف سائز کے چولہوں کو ’’ڈس پلے‘‘ پر رکھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کمپنی کی جانب سے ان آتش فشاں چولہوں کو مناسب معاوضے کے عوض کرائے پر بھی دیا جارہا ہے۔
مقامی جریدے مانیٹر نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یوگنڈا سمیت افریقی خطہ میں ماحول دوست چولہے تیزی سے رواج پکڑ رہے ہیں جو سستے بھی ہیں۔ یوگنڈا کے حکام نے بتایا ہے کہ کمپنی ان پتھروں کو ان مختلف خطوں سے امپورٹ کررہی ہے جہاں آتش فشانی چٹانیں موجود ہیں یا وہاں کبھی لاوا موجود تھا اور اب ٹھنڈا ہوکر آتش فشانی چٹان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ سیاہ آتش فشانی پتھر کوئلے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ کوئلے اور درختوں کی لکڑیوں کی نسبت قیمت میں کافی سستے ہیں۔ ان پتھروںکی ایک اور خاصیت ان کو روایتی ایندھن سے اس لئے بھی ممتاز کرتی ہے کہ یہ ایک بار دہک یا سلگ جائیں تو کوئلے یا لکڑی کے روایتی ایندھن کے مقابلہ میں تین چارگھنٹے زیادہ دہکتے ہیں اور کوئلہ یا لکڑی کے مقابلہ میں ان کی کم مقدار استعمال میں آتی ہے۔ دارالحکومت کمپالا کے ایک بڑے کمیونٹی کچن میں کام کرنے والی رضاکار خاتون ’سوسن بیماگومائر‘ نے جب پہلی بار اس چولہے کی مدد سے کئی بڑی دیگوں میں کھانا تیار کیا تو وہ حیران رہ گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے کوئلے یا لکڑی کی مدد سے ہم کمیونٹی کچن میں سینکڑوں افراد کاکھانا پورا دن لگا کر بناتے تھے اور اس دوران دھویں، بدبو اور شدید گرمی سے ہمارا برا حال ہوجاتا تھا۔ لیکن جب سے یہ آتش فشانی پتھروں والے چولہے ہمیں ملے ہیں۔ کھانا پکانا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ یہ چولہے جب ایک بار دہک جاتے ہیں تو اس کی تیز آنچ میں کھانا جلدی پکتا ہے۔ دھواں بھی نہیں لگتا اور نہ ہمارے کپڑوں میں بو سماتی ہے۔ بس اس آتش فشانی پتھروں والے چولہے کو احتیاط کیساتھ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس کی آنچ بہت تیز ہوجاتی ہے۔ ان آتش فشانی پتھروں کو چھوٹی بھٹیوں سمیت تندوروں اور صنعتی پیداواری کمپنیوں اور کارخانوں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے اور ایل پی جی گیس، کوئلے، لکڑی یا دیگر اقسام کے مہنگے ایندھن سے نجات پائی جارہی ہے۔
ایکو اسٹوو بنانے والی افریقی کمپنی کی بانی روز ٹوائن نے میڈیائی نما ئندگان سے گفتگو میں اس چولہے اورآتش فشانی پتھر کی خاصیت پر کہا کہ ماحول دوست چولہا آتش فشانی پتھریلے ایندھن سمیت محض 350 امریکی ڈالرز (پاکستانی چوراسی ہزار روپے) کا ہے۔ اس پیکیج میں فراہم کئے جانیوالے آتش فشانی پتھروں کی مدد سے دو برس تک کوئی بھی گھرانا تین وقت کھانا پکا سکتا ہے۔ سردیوں میں کئی بار پانی گرم کرسکتا ہے یاکوئی اور کام لے سکتا ہے۔ یہ ایک بڑ ی دس سے بارہ افراد کی فیملی کا ایندھن سمیت پیکیج ہے اور اگر کسی کی فیملی چار یا پانچ یا چھ افراد پر مشتمل ہے تو ایسا گھرانا دو سال تک صرف ایک سو ڈالر میں استفادہ کر سکتا ہے۔ مقامی خاتون’میلومیا‘ کا کہنا ہے کہ کوئلے اور لکڑی کی نسبت یہ آتش فشانی پتھر دہک کر اپنا سائز کم نہیں کرتے۔ مسلسل دو برس جلائے جانے پر یہ خود کو راکھ میں بدل لیتے ہیں۔