ودیا ساگر کمار:
انڈین لائیو اسٹاک سمیت اینمل ہسبنڈری ڈیپارٹمنٹ نے تصدیق کی ہے کہ لمپی وائرس دیش بھر میں سوا لاکھ گائیوں کی موت کا سبب بن چکا ہے اور اگلے دو ہفتوں میں مزید دو لاکھ گائیں مر سکتی ہے۔
’نیشنل ہیرالڈ‘ نے متعلقہ وزارت کے حوالہ سے انکشاف کیا ہے کہ ٹیسٹنگ رپورٹ سے بھارت میں اس وقت تیس لاکھ گائیں لمپی وائرس کا شکار ہو چکی ہیں۔ دہلی سرکار نے گائیوں میں اِسکن وائرس کے حوالے سے ملک گیر ایمرجنسی نافذ کردی ہے اور تمام ریاستوں میں بالخصوص گائے اور مویشی کمیلوں پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ جبکہ خوفزدہ کسانوں نے اپنی اور اپنے کنبے کی زندگی بچانے کیلیے متاثرہ گایوں کو گھروں اور کھیتوں سے آزاد کرنا شروع کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ بیماری مزید تیزی سے پھیل رہی ہے۔
بھارتی اینمل ہسبنڈری ماہر وشال شرما کا کہنا ہے کہ لمپی وائرس سے انفیکشن کے ابتدائی کیس تین سال قبل 2019ء میں محدود سطح پر رپورٹ ہوئے تھے۔ اگرچہ اس کی اطلاع اور گرائونڈ رپورٹ ریاستی اور پھر مرکزی سرکاروں کو بھیجی گئی تھی۔ لیکن انتظامی سطح پر اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ راجستھان، گجرات، اترپردیش سمیت ہریانہ میں ایسی تصاویر اور ویڈیوز میڈیا میں منظر عام پرآئی ہیں جن میں بلڈوزر اور ٹریکٹرز کی مدد سے ہلاک گایوں کو بڑے گڑھوں میں پھینک کر مٹی بھرتے دکھایا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ لمپی وائرس کی کوئی سو فیصد اینٹی وائرس ویکسین دستیاب نہیں۔ لیکن کئی مقامی بھارتی کمپنیوں کی جانب سے دعویٰ کیاگیا ہے کہ بخار اور انفیکشن کی ویکسین اس وائرس میں اثر دکھا سکتی ہے۔ مذکورہ تینوں ریاستوں میں گئو شالائیں اصل میں گایوں کا مرگھٹ بن چکی ہیں۔ اترپردیش، راجستھان، مدھیا پردیش، بہار، جھاڑ کھنڈ، آندھرا پردیش، اتر کھنڈ اور ہریانہ میں لمپی وائرس نے گئو ماتا کے حکومتی پروجیکٹس کو ٹھنڈا کردیا ہے۔
انڈین ایکسپریس نے تصدیق کی ہے کہ اترپردیش میں لاکھوں گایوں کو لمپی وائرس سے بچانے کیلئے پانچ ملحق ریاستوں جھاڑ کھنڈ، بہار، مدھیا پردیش، راجستھان اور اترکھنڈ سے گایوں کی ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور ریاستی سرحدیں بند کی جا چکی ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دیش بھر میں لمپی وائرس نے بھیانک رُخ اختیار کرلیا ہے۔ جریدے ڈیلی بھاسکر کے مطابق وائرس 15 بھارتی ریاستوں کے 300 اضلاع میں پھیل چکا ہے۔ جلدی وائرس نے دیش بھر میں تیس لاکھ سے زیادہ گایوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کم و بیش سوا لاکھ سے زیادہ گائیں مر چکی ہیں۔ مختلف اضلاع میں سڑکوں، کھیتوں اور گئو شالائوں میں گایوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں اور آوارہ کتوں کی ضیافت کاسامان بن رہی ہیں۔ صرف ریاست راجستھان میں چودہ لاکھ سے زیادہ گائیں اسکن ڈیزیز سے شدید متاثر ہیں۔ جبکہ ستر ہزار سے زیادہ مر چکی ہیں۔ بھارت میں لم پی وائرس کا براہ راست اثر مویشی پالن اور کسانوں پر پڑا ہے اور دودھ کی پیداوار میں واضح کمی آئی ہے۔
دہلی میں موجود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 25 ستمبر کی رات تک دیش بھر میں1,24,987 گائیں مہلک جلدی وائرس کی وجہ سے مر چکی ہیں۔ لیکن غیر سرکاری اعداد و شمارکے حوالہ سے میڈیائی اور این جی اوز رپورٹس میں ہلاک ہونیوالی گائیوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے بتایا ہے کہ بیشتر بھارتی ریاستوں کو لمپی وائرس کی ویکسین کی دو کروڑ خوراکیں بھیجی جاچکی ہیں اور اسٹاک میں ڈیڑھ کروڑ خوراکیں موجود ہیں۔ جبکہ ہنگامی احکامات کے تحت مختلف مقامی و علاقائی کمپنیوں کو اکتوبر 2022ء کے اخیر تک چار کروڑ خوراکیں تیار کرکے بھیجے جانے کا آرڈر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ لمپی اِسکن ڈیزیز، جس کو بھارت میں ایل ایس ڈی کا تخفیفی نام دیا گیا ہے، مویشیوں اور بھینسوں کی ایک وائرل بیماری ہے۔
ماہرین نے بتایا ہے کہ لمپی وائرس ڈیزیز کی بیماری بنیادی طور پر مکھی، مچھروں اور دیگر اقسام کے حشرات کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ جبکہ یہ بیماری فومائٹس کے ذریعے آلودہ آلات اور بعض صورتوں میں براہ راست جانوروں سے دوسرے جانوروں میں بھی منتقل ہو سکتی ہے۔ لیکن اب تک اس وائرس سے انسانوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ ریاست اترپردیش میں مویشی ماہر امرت کمار کا کہنا تھا کہ بھارت میں لمپی وائرس بڑی تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے۔ یہ جلدی (skin) انفیکشن عام طور پر مویشیوں میں بخار اور جلد پر خاص طرح کے نوڈولس کے ابھار کے بعد ایک شدید بیماری کا سبب بن جاتا ہے اورجانور میں دودھ کی پیداوار میں واضح کمی ہوجاتی ہے۔ جبکہ حاملہ گائے فوری ہلاک ہوجاتی ہے۔ بھارت سرکار کی مدد کیلیے ورلڈ آرگنائزیشن فار اینمل ہیلتھ/ او آئی ای کے ایکسپرٹس زیادہ خطرات والی ریاستوں میں ٹیموں کی مدد کیلئے موجود ہیں اور ریاست بھر میں تمام گائیوں کی وکسی نیشن کا کام کر رہی ہیں۔ مویشی ماہرین کے مطابق اس بیماری میں جانوروں کی اموات کی شرح عموماً 10 فیصد سے کم رہتی ہے۔ لیکن جب مویشیوں کی سادہ آبادی میں وبا پھیلتی ہے تو موت کی شرح دوگنی بھی ہو سکتی ہے۔