تہران(امت نیوز) ایران میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ اتوار کو بھی جاری رہا ہے، اس طرح یہ مظاہرے چوتھے ہفتے میں داخل ہوگئے۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ بدامنی کے واقعات اور سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں 19 کم سن بچّوں سمیت 185 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ناروے سے تعلق رکھنے والی غیرسرکاری تنظہم ’’ایران ہیومن رائٹس‘‘ نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ سیستان،بلوچستان میں ہوئی ہیں۔ان کی تعداد ریکارڈ کی گئی کل ہلاکتوں کا نصف ہے۔
تشدد کے واقعات میں سکیورٹی فورسز کے کم سے کم 20 ارکان کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اتوار کوعلی الصباح ایران کے درجنوں شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔
اسکولوں اور جامعات کی طالبات احتجاجی مظاہروں میں شرکت کررہی ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز ان کے خلاف اشک آورگیس، ڈنڈوں کا استعمال کررہی ہیں اور بعض علاقوں میں براہ راست فائرنگ کررہی ہیں۔
ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص چیخ رہا ہے کہ ’میری بیوی کو مت مارو، وہ حاملہ ہے’۔
دیگر ویڈیوز میں مظاہرین کو تہران کے جنوبی حصے میں بعض سڑکوں کو بلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
بڑے پیمانے پر ہڑتال کی اپیل کے بعد کئی شہروں میں دکانیں بند کردی گئیں۔
حکام نے انٹرنیٹ پر جزوی پابندی عاید کررکھی ہے جس کی وجہ سے پُرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تفصیل تاخیر سے سامنے آرہی ہے۔
ایرانی فوج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری نے احتجاجی مظاہروں میں شریک اپنے ہم وطنوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح افواج ملک میں سیکورٹی کی صورتحال ہر صورت بحال کریں گی۔
محمد باقری نے مزید کہا کہ ایرانی عوام کو اس وقت مختلف شعبوں میں مشترکہ خطرات کا سامنا ہے اور ان خطرات سے نمٹنے کیلئے تیاری کی اشد ضرورت ہے۔