نیب ترامیم کے بعد386 کیسز احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے۔فائل فوٹو
نیب ترامیم کے بعد386 کیسز احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے۔فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے نیب سے ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کر لیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے 1999 سے لے کر جون 2022 تک تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بے نامی دار کی تعریف مشکل بنا دی گئی ہے اور معاملہ اہم سیاسی رہنماؤں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ہے۔ جہاں عوامی پیسے کا تعلق ہو وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں؟چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ معاشی پالیسز کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں اوراگر کسی سے کوئی جرم ہوا ہے تو قانون میں شفاف ٹرائل کا طریقہ کار ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا میں معاشی پالیسی کے الفاظ واپس لیتا ہوں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کہیں ایسا نہ ہو پورا کیس مکمل ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے بنیادی حقوق کا تو سوال ہی نہیں تھا، نیب ترامیم کے ذریعے کس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟ فرض کریں پارلیمنٹ نے ایک حد مقرر کردی اتنی کرپشن ہو گی تو نیب دیکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ عام شہری کے حقوق کیسے متاثر ہوئے ہیں؟۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ نیب قانون سے زیر التوا مقدمات والوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے نے کہا کہ کیا کوئی ایسی عدالتی نظیر ہے جہاں شہری کی درخواست پر عدالت نے سابقہ قانون کو بحال کیا ہو اور شہری کی درخواست پر عدالت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پبلک منی کا معاملے پر عدالت قانون سازی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

عدالت نے نیب سے 1999 سے لے کر جون 2022 تک تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ کتنے کرپشن کیسز ہیں جن میں سپریم کورٹ تک سزائیں برقرار رکھی گئی ہیں اور اب تک نیب قانون کے تحت کتنے ریفرنسز مکمل ہوئے جبکہ نیب قانون میں تبدیلی کے بعد کتنی تحقیقات مکمل ہوئیں۔ ان سب کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔  بعد ازاں عدالت نےسماعت کل تک ملتوی کردی۔