واشنگٹن(امت نیوز) امریکا تیل کے اپنے اسٹریٹیجک ذخائر میں سے ایک کروڑ پچاس لاکھ بیرل اوپن مارکیٹ میں ریلیز کرنے جا رہا ہے جس کا اعلان صدر جو بائیڈن نے کیا۔
امریکی حکام نے کہا ہے کہ تیل کی ریکارڈ ریلیز کے بعد بھی اگر توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں مزید تیل مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔
امریکی اعلٰی عہدیدار نے بتایا کہ یوکرین کی جنگ کے باعث قیمتوں میں اضافے سے نمٹنے کے لیے پیٹرولیم کے امریکی اسٹریٹیجک ذخائر میں سے ایک کروڑ 80 لاکھ بیرل تیل جاری کرنے کی منظوری دی گئی تھی جو حالیہ ریلیز کے بعد مکمل ہو جائے گی۔
حکام کے مطابق اس اقدام سے واضح ہے کہ روس یا دیگر ممالک کے اقدامات کے باعث اگر عالمی مارکیٹ میں خلل پیدا ہوتا ہے تو امریکی انتظامیہ اہم فیصلے کرنے کے لیے تیار ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں تیل کی قیمت پانچ ڈالر فی گیلن تک جا پہنچنے سے نہ صرف پورے ملک میں غصے کی لہر دوڑ جائے گی بلکہ صدر بائیڈن کے لیے بھی سنگین سیاسی نتائج ہوسکتے ہیں۔
آئندہ ماہ نومبر میں امریکی ایوان نمائندگان کے وسط مدتی انتخابات کے دوران حکمران ڈیموکریٹ پارٹی کی ممکنہ شکست کا ایک بڑا عنصر بڑھتی ہوئی مہنگائی ہوسکتی ہے۔
اس سے پہلے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس نے 5 اکتوبر کو ویانا میں ہونے والے اجلاس کے دوران تیل کی یومیہ پیداوار میں 20 لاکھ بیرل کی کمی پر اتفاق کیا تھا۔
صدر جو بائیڈن نے اوپیک پلس کے اس فیصلے کو دور اندیشی کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام کی وجہ سے سعودی امریکا تعلقات پر اثرات مرتب ہوں گے، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے جاری بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ ملتوی کرنے کے دنیا پر منفی اثرات ہوں گے۔
سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’یہ تنقید کہ مملکت بین الاقوامی تنازعات میں فریق بن رہی ہے یا امریکہ کے خلاف سیاسی وجوہات کی بناء پر تیل پیداوار میں کٹوتیوں کی حمایت کر رہی ہے، حقائق پر مبنی نہیں۔‘
سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے بھی واضح کیا تھا کہ ’سعودی عرب، روس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ ہم تیل مارکیٹ کے استحکام کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘