اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پچھلے 2،3 روز سے ہندوستان میں جس طرح خوشیاں منائی جا رہی ہیں وہ سب نے دیکھا اور کسی بھی سیاسی رہنما نے بعض ایسی حدود ہیں جو پار نہیں کیں لیکن وہ عمران خان نے پار کیں۔ پچھلے 3 روز سے لگاتار انہوں نے پروپیگنڈہ کرکے بھارت کو موقع فراہم کیا ہے اور ہندوستان میں جشن منایا جا رہا ہے۔ ان کے ایک صاحب بھارتی چینل میں بھی بات کرنے پہنچ گئے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی سیاست بڑے اہم موڑ پر آچکی ہے اور نومبر سیاسی طور پر فیصلہ کن ثابت ہو گا۔
لانگ مارچ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کا قافلہ 10 سے 12 ہزارافراد سے شروع ہوا اور مریدکے میں عمران خان کے قافلے میں ڈھائی ہزار لوگ ہیں، اب اسلام آباد پہنچتے پہنچتے کیا حال ہو گا وہ اندازہ کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ چند روز قبل عمران خان سیالکوٹ آیا تھا لیکن میں اس وقت یہاں نہیں تھا اور تمام تر حکومتی مشنری لگا کر کتنے لوگ جمع کرسکے سب کے سامنے ہے۔عمران خان کا اصلی چہرہ سب سامنے آچکا ہے لیکن کچھ کو ابھی بھی غلط فہمی ہے تاہم وہ بھی آئندہ آنے والے دنوں میں دور ہو گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا عمران خان نے آرمی چیف کے حوالے سے رابطہ کیا اورعمران خان نے پیغام بھیجا آرمی چیف کا فیصلہ ہم مل کے کرتے ہیں۔ آئین نے یہ فرض وزیر اعظم کو دیا ہے اور عمران خان کے ذہن میں کہاں سے آگیا کہ یہ سیاست کا حصہ ہے۔ یہ کہاں ہماری روایت ہے کہ سیاستدان مذاکرات کر کے آرمی چیف لگائیں؟ آرمی چیف کی تعینات سیاستدان مذاکرات کر کے کریں گے تو پھر کیا رہ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس ادارے نے 4 ماہ میں 77 شہادتیں دی ہیں اور آپ کا ساتھ نہ دیں تو آپ تنقید کرتے ہیں۔ عمران خان کون ہوتا ہے آرمی چیف کے معاملے میں مشورے دینے والا؟ عمران خان اس وقت اسمبلی رکن بھی نہیں ہے وہ نااہل ہو چکا ہے۔ عمران خان کہتا ہے مجھے نہیں معلوم تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کرپٹ ہیں اور مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ دونوں کرپٹ ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کے اجتماعی شعور کی توہین نہ کریں۔ اچھے دن آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اللہ سے اچھے دنوں کی دعا کرنی چاہیئے۔ بتایا گیا کہ مذاکرات ہورہے ہیں لیکن کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے بہت سے اراکین اسمبلی ہم سے رابطے کر رہے ہیں جو پی ٹی آئی کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اگلے انتخابات کے حوالے ہم سے یقین دہانی چاہتے ہیں۔