ندیم بلوچ:
آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پاکستان کی سرپرائز انٹری سے حریف ٹیموں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ جبکہ ماہرین نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی فائنل تک رسائی کی پیش گوئی کرڈالی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو سیمی فائنل میں ممکنہ طور پر انگلینڈ سے شکست کا سامنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو زیر کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
ورلڈ کپ سے قبل کرائسٹ چرچ میں ہونے والی ٹرائی نیشن سیریز میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو مکمل طور پر آئوٹ کلاس کر ڈالا تھا۔ اب دونوں کے درمیان سیمی فائنل نو نومبر کو سڈنی کے میدان میں کھیلا جائے گا۔ بھارت کا مقابلہ ایونٹ کی ہاٹ فیورٹ انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ گرین شرٹس کو ویسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جیسے پاکستانی ٹیم کو 32 برس قبل آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کرنا پڑا تھا۔ اُس وقت ابتدائی مرحلے میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم کا سفر پہلے ہی رائونڈ پر اختتام پذیر ہوجائے گا۔ 92 ورلڈکپ میں بھی گرین شرٹس ایڈیلیڈ کے میدان سے ابھری۔ جبکہ اس وقت بھی پاکستان کا سیمی فائنل نیوزی لینڈ سے ہی ہوا تھا اور اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہونے جارہا ہے۔ 92 ورلڈکپ میں جنوبی افریقی ٹیم کو بارش لے ڈوبی اور پاکستان کی راہ ہموار ہوئی۔ جبکہ اس بار بھی چوکرز کی شکست سے پاکستان کو سیمی فائنل تک رسائی کا موقع ملا۔ دوسری جانب اس اہم مرحلے سے قبل قومی فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی مکمل طور پر ردھم حاصل کر چکے ہیں۔ حارث کی صورت میں پاکستانی ٹیم میں پاور ہٹنگ کا شعبہ بھی خاصا مضبوط ہوچکا ہے۔ ماہرین نے فائنل میں پاکستان اور برطانیہ کے مقابلے کی پیش گوئی کر ڈالی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی کرکٹ ٹیم ابھی اپنے آخری گروپ میچ کیلئے میدان میں اتری بھی نہیں تھی کہ سیمی فائنل میں پہنچنے کی اس کی امیدیں ہالینڈ نے روشن کردیں۔ جس نے ایڈیلیڈ اوول میں اپنے سے بڑی جنوبی افریقہ کی ٹیم کو 13 رنز سے ہراکر ہلچل مچا دی۔ ہالینڈ کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپ سیٹ کرنے کا فن خوب آتا ہے۔ اس سے قبل اس نے دو مرتبہ انگلینڈ کو شکست دی تھی۔ جنوبی افریقی ٹیم نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ آئی سی سی ایونٹنس میں وہ راہ سے بھٹک جاتی ہے۔ اسی لیے چوکر کہلاتی ہے۔ ہالینڈ کی اس یادگار جیت کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے سیمی فائنل میں قدم رکھنے کے لیے بنگلہ دیش کو ہرانا لازمی ہوگیا تھا اور اس نے اس بار کوئی غلطی کیے بغیر 5 وکٹوں سے کامیابی حاصل کرکے آخری چار ٹیموں میں جگہ بنالی۔ پاکستانی ٹیم کے لیے ایڈیلیڈ کا میدان وہی ہے جہاں 1992ء کے عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم کی قسمت بدلی تھی۔ انگلینڈ کے خلاف وہ صرف 74 رنز پر آئوٹ ہوگئی تھی۔ لیکن بارش کی وجہ سے دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا تھا اور یہی ایک پوائنٹ اسے آگے لے گیا اور اب تیس سال بعد پاکستانی ٹیم نے اس گرائونڈ سے اہم موڑ لیا ہے۔
شکیب الحسن نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور بنگلہ دیش کی ٹیم 8 وکٹوں پر 127 رنز تک پہنچ پائی۔ پاکستانی ٹیم انہی گیارہ کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اتری جس نے جنوبی افریقہ کے خلاف اہم جیت حاصل کی تھی۔ بنگلہ دیشی اوپنرز نجم الحسین اور لٹن داس اسی ٹورنامنٹ میں اپنی بہترین اننگز کھیل چکے ہیں۔ لٹن داس کو اوپنر کی حیثیت سے آزمانے کا تجربہ انڈیا کے خلاف میچ میں کامیاب رہا تھا۔ وہ شاہین شاہ آفریدی کیخلاف بھی جارحانہ موڈ میں نظر آرہے تھے۔ لیکن آفریدی کا تجربہ انہیں شان مسعود کی مدد سے واپسی کا راستہ دکھا گیا اور وہ اس مرتبہ صرف 10 رنز بنا سکے۔ نجم الحسین اور سومیا سرکار نے محمد وسیم کے پہلے ہی اوور میں تیرہ رنز بٹورے۔ اس اوور میں شاداب خان نجم الحسین کا کیچ لینے میں بھی ناکام رہے۔
بنگلہ دیش نے پاور پلے میں ایک وکٹ گنوا کر 40 رنز بنائے تھے۔ نجم الحسین اور سومیا سرکار کی 52 رنز کی شراکت شاداب خان کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ جن کا 20 رنز پر کیچ شان مسعود نے لیا۔ بنگلہ دیش کے لیے سب سے بڑا دھچکا کپتان شکیب الحسن کا پہلی ہی گیند پر شاداب خان کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہونا تھا۔ امپائر نے انہیں آئوٹ دیا تو شکیب الحسن نے فوراً ریویو لے لیا۔ لیکن تھرڈ امپائر نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ شکیب الحسن اس فیصلے پر مطمئن نہیں تھے اور وہ گرائونڈ سے جانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ لیکن تھرڈ امپائر کے فیصلے کے مطابق گیند بلے سے نہیں لگی تھی۔ بلکہ بلا زمین پر لگا تھا۔ جس کی وجہ اسنکو میٹر پر نشان دکھائی دیا تھا۔ عفیف حسین نے شاداب خان کو ہیٹ ٹرک سے باز رکھا۔ شاداب خان نے اپنے چار اوورز کا اختتام 30 رنز دو کھلاڑی آئوٹ پر کیا۔ نجم الحسین نے اس ٹورنامنٹ میں اپنی دوسری نصف سنچری مکمل کی۔ لیکن 54 رنز پر افتخار احمد کی آف اسپن نے انہیں بولڈ کردیا۔ بنگلہ دیش کی چوتھی وکٹ 91 رنز پر گری۔
افتخار احمد نے گیند پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہوئے بنگلہ دیشی بیٹسمینوں کو باندھ کر رکھا اور اپنے تین اوورز میں ایک وکٹ کے حصول کیلئے صرف 15 رنز دیئے۔ شاداب خان اور افتخار احمد کی موثر بالنگ نے درمیانے اوورز میں اسکور کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان دونوں کے سات اوورز میں صرف 45 رنز بنے اور اس کے بدلے انہوں نے 3 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ شاہین شاہ آفریدی اپنے دوسرے اسپیل میں واپس آئے اور تیسرے اوور میں یارکر کے ذریعے مصدق حسین کو بولڈ اور نورالحسن کو محمد حارث کے ہاتھوں کیچ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے اپنی چوتھی وکٹ تسکین احمد کو بابراعظم کے کیچ کے ذریعے حاصل کی۔ شاہین شاہ آفریدی نے 22 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کی ہیں۔ جو ان کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بہترین بالنگ ہے۔ اس سے قبل ان کی بہترین بالنگ تین روز پہلے جنوبی افریقہ کے خلاف رہی تھی۔ جس میں انہوں نے 14 رنز دے کر 3 کھلاڑی آئوٹ کیے تھے۔ پاکستانی اننگز کے پہلے ہی اوور میں دل کی دھڑکین تیز بھی ہوئیں اور بیٹھنے بھی لگیں۔ رضوان نے تسکین احمد کو چھکا مارا اور اگلی ہی گیند پر وہ وکٹ کیپر نورالحسن کے ہاتھوں کیچ ہونے سے بچ گئے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھا کر رضوان اور بابراعظم اس ٹورنامنٹ میں اپنی سب سے بڑی 57 رنز کی اوپننگ شراکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے قبل اس ٹورنامنٹ میں دونوں کی سب سے بڑی شراکت محض 16 رنز کی تھی۔ بابراعظم نے سنگل فگر سے باہر نہ نکلنے کا جمود ضرور توڑا۔ لیکن 33 گیندوں پر 25 رنز بنا کر وہ اپنی وکٹ نہ بچا سکے۔ صرف چار رنز کے اضافے پر رضوان احمد نے بھی اپنی وکٹ عبادت حسین کی گیند پر گنوائی۔ انہوں نے 32 رنز اتنی ہی گیندیں کھیل کر بنائے۔ پاکستان نے 10 اوورز کے اختتام پر دو وکٹوں پر صرف 56 رنز بنائے تھے۔ محمد نواز نجم الحسن کی تھرو پر رن آئوٹ ہونے سے بال بال بچے۔ لیکن دوسری بار یہ غلطی پاکستانی ٹیم کو بہت مہنگی پڑگئی۔ لٹن داس کی تھرو پر وہ صرف 11 رنز بنا کر رن آئوٹ ہوگئے۔
حارث نے پاکستانی ٹیم کے ڈگ آئوٹ میں پائی جانے والی بے چینی کو عبادت حسین کے ایک ہی اوور میں چوکے اور چھکے کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد انہوں نے تسکین احمد کی گیند کو بھی بائونڈری کے باہر پہنچادیا۔ وہ صرف اٹھارہ گیندوں پر ایک چوکے اور دو چھکوں کی مدد سے 31 رنز کی اہم اننگز کھیل کر آئوٹ ہوئے تو جیت صرف7 رنز کی دوری پر رہ گئی تھی۔ شان مسعود کے شکیب الحسن کے ایک اوور میں دو چوکے پاکستانی ٹیم کیلئے آکسیجن ثابت ہوئے۔ لیکن ہدف تک پہنچنے سے قبل پاکستانی ٹیم کو افتخار احمد کی وکٹ سے بھی محروم ہونا پڑا۔ پاکستانی ٹیم نے جب مطلوبہ اسکور پورا کیا تو گیارہ گیندیں باقی رہتی تھیں۔