بچی کے والدین پیشہ ور گداگر ہیں ،واقعے کے بعد سے غائب ہیں۔ فائل فوٹو
بچی کے والدین پیشہ ور گداگر ہیں ،واقعے کے بعد سے غائب ہیں۔ فائل فوٹو

’’درندہ صٖت مجرم11برس تک معصوم کلیوں کو پامال کرتا رہا‘‘

عمران خان:
کراچی کی ایک عدالت کی جانب سے سزائے موت پانے والا درندہ صفت مجرم گزشتہ 11برس تک معصوم بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا۔ ان میں سے پانچ کیس عدالت میں زیر سماعت تھے۔ ایک میں اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ باقی کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یہ کیس بھی اپنے اختتامی مراحل میں ہیں۔
واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے ایک کمسن بچی سے زیادتی کے پانچ برس پرانے مقدمے میں ملزم امجد علی عرف ساجد عرف ذاکرکو جمعہ کے روز پھانسی کی سزا سنائی۔ یوں کئی برس تک خوف کی علامت بننے والا ’’سیریل ریپسٹ‘‘ بظاہر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے۔ اس کیس میں ملزم کو دو ہزار سترہ میں شاہ لطیف ٹائون پولیس کی حدود میں ایک بچی سے زیادتی کا مجرم پایا گیا تھا۔ سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے قبل ازیں فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اسی عدالت میں امجد علی کے خلاف ملیر کے مختلف علاقوں میں مزید چار بچیوں سے زیادتی کے مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ عدالت نے اس سلسلے میں گواہوں کو شہادتیں ریکارڈ کرانے کے لئے طلب کر رکھا ہے۔
استغاثہ کے مطابق پولیس نے دو ہزار پندرہ سے دو ہزار اٹھارہ کے درمیان ملیر میں کمسن بچیوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں ملزم امجد علی عرف ذاکرکو حراست میں لیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب تھانہ سکھن اور تھانہ قائدآباد کی حدود میں بچیوں سے زیادتی کے پے در پے واقعات نے متعلقہ علاقے کے مکینوں میں خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔ والدین نے اپنی بچیوں کو گھر سے نکالنا بند کردیا تھا۔
چار برس قبل مارچ دو ہزار اٹھارہ میں ہونے والی اس گرفتاری کے بعد ملزم کی گھنائونی وارداتوں سے پردہ اٹھنے کا آغاز ہوا۔ ملزم سکھن کے علاقے میں ایک بچی کو زیادتی کی نیت سے اغوا کرنے کی کوشش میں موقع پر پکڑا گیا تھا۔ جب ملزم کو گرفتار کرکے ڈی این اے کرایا گیا تو یہ ڈی این اے تحقیقاتی ٹیم کے پاس پہلے سے موجود ملزم کے ڈی این اے سے میچ کرگیا۔ جس پر ملزم امجد علی عرف ذاکر کو بائیس دسمبر دو ہزار سترہ کے ایک کیس میں گرفتار کیا گیا۔ تب ملزم نے تھانہ شاہ لطیف ٹائون کے علاقے ظفر ٹائون کی ایک نو سالہ بچی کو اغوا کے بعد ریلوے ٹریک پر لے جاکر زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ متاثرہ بچی مغرب کی نمازکے بعد گھر کے قریب واقع تندور سے روٹیاں لینے نکلی تھی۔ تاہم وحشی ملزم کے ہاتھ چڑھ گئی۔ بعد ازاں بچی کو تشویشناک حالت میں جناح اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

ملزم کی گرفتاری کے لیے علاقے کے درجنوں افراد کا ڈی این اے کرایا گیا تھا۔ ملزم امجد علی کا ڈی این اے نہ صرف نو سالہ بچی کے ڈی این اے سے میچ ہوا بلکہ زیادتی کا نشانہ بننے والی دیگر چار بچیوں کے ڈی این اے سے بھی میچ کرگیا۔ یوں مجموعی طورپربچیوں سے زیادتی کے پانچ واقعات کی گتھی بھی سلجھ گئی۔ ان چاروں بچیوں کے زیر سماعت مقدمات دو ہزار پندرہ سے شواہد کے منتظر تھے۔ جب گرفتار ملزم امجد علی کا ڈین این اے اور میڈیکل رپورٹ ڈرامائی طور پر دیگر چار متاثرہ بچیوں کے ڈی این اے سے میچ کرگئی تو اس کے خلاف مزید چار مقدمات بھی درج کرلئے گئے۔
اس کیس کا المناک پہلو یہ ہے کہ گرفتاری کے بعد دوران تفتیش امجد علی عرف ذاکر نے ایک درجن سے زائد بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کا انکشاف کیا تھا۔ ان میں سے نصف کے قریب واقعات پنجاب کے ہیں۔ تاہم پنجاب پولیس کی عدم دلچسپی کے باعث ان کیسوں پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ دوران تفتیش ملزم نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ وہ گزشتہ گیارہ برس سے اس انسانیت سوز فعل میں ملوث تھا اورایک عادی مجرم ہے۔

ایک تفتیشی افسر کے بقول ایک درجن کے قریب یہ وہ واقعات ہیں، جو رپورٹ ہوئے۔ ممکنہ طور پر درجنوں ایسے غیر رجسٹرڈ کیس بھی ہوں گے، جو شاید منظر عام پر نہ آسکیں۔ کیونکہ ملزم خود اعتراف کرچکا ہے کہ اس کا شیطانی عمل گیارہ برس پر محیط ہے۔
گرفتاری کے بعد ملزم امجد علی عرف ذاکر نے تفتیش کاروں کے سامنے سنسنی خیز انکشافات کئے تھے۔ ملزم نے اعتراف کیا تھا کہ دو ہزار سات سے دو ہزار اٹھارہ تک اس نے پچھلے گیارہ برسوں میں پنجاب اور کراچی میں درجنوں بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
مجرم امجد علی کی وارداتوں میں بالخصوص دو ہزار اٹھارہ اور دو ہزار انیس کے دوران اضافہ ہوا۔ جب تھانہ شاہ لطیف ٹائون ،تھانہ سکھن اور تھانہ قائد قائد آباد کے علاقوں میں آئے روز بچیوں سے زیادتی کے واقعات رونما ہونے لگے۔ جس پر سندھ حکومت زبردست عوامی تنقید کی زد میں تھی۔ ملزم کی گرفتاری کے لئے اس وقت کے آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ، ایڈیشنل آئی جی کراچی اور ڈی آئی جی ایسٹ ذوالفقار لاڑک پر شدید دبائو تھا۔ چنانچہ ملزم کی گرفتاری کے لئے پانچ لاکھ روپے کا نعام مقرر کردیا گیا تھا۔ جبکہ کراچی پولیس کے تفتیشی شعبہ میں ماہر سمجھے جانے والے ڈی ایس پی علی حسن شیخ اور ڈی ایس پی خالدخان کو ان کیسوں کی گتھی سلجھانے اور ملزم کی گرفتاری کی ذمے داری سونپی گئی۔

ملزم کی گرفتاری کے لئے دونوں تفتیشی افسران کی سربراہی میں کام کرنے والی ٹیم نے متعلقہ علاقوں سے سینکڑوں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا۔ ان میں سے درجنوں افراد کے ڈی این اے نمونے حاصل کرکے ٹیسٹ کرائے گئے۔ ایک ڈی این اے ٹیسٹ تینتیس ہزار روپے میں ہوا۔ یوں مجموعی طور پر ڈی این اے پر دس لاکھ روپے سے زائد اخراجات آئے۔ تاہم اس جدوجہد اور اخراجات کے نتیجے میں پولیس آخر کار اصل ملزم تک پہنچ گئی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کی خاتون جج امینہ نذیر انصاری نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزم ہمدردی کا مستحق نہیں۔ مجرم کے خلاف تھانہ شاہ لطیف ٹائون میں 2، تھانہ قائدآباد میں 2 اور تھانہ سکھن میں ایک مقدمہ درج ہے۔
پولیس تحقیقات کے مطابق دو ہزار سترہ اور دو ہزار اٹھارہ میں ملیر اور مضافات کے علاقوں میں کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتی کے مسلسل واقعات ہورہے تھے۔ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پانچ ایسے کیسز آئے، جن میں متاثرہ بچیوں سے حاصل کردہ نمونوں کے ڈی این اے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ان میں ایک ہی ملزم ملوث ہے۔ چونکہ یہ واقعات ہائی پروفائل کیس کا درجہ اختیار کرگئے تھے۔ لہٰذا ملزم کی گرفتاری پولیس حکام اور سندھ حکومت کے لئے چیلنج بن چکی تھی۔ آخر کار چار ماہ کی جدوجہد کے بعد ملزم پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔
پولیس تحقیقات کے مطابق پھانسی کی سزا پانے والے مجرم امجد علی کا آبائی تعلق پنجاب کے شہر جھنگ سے ہے۔ ملزم کراچی کی لیبر کالونی میں اکیلا رہتا تھا۔ اور قریب واقع ایک گارمنٹس کمپنی میں مشین فٹر کی حثیت سے ملازمت کرتا تھا۔ ملزم نے دوران تفتیش یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ وہ اس سے قبل دو ہزار بارہ میں کراچی کے تھانہ مبینہ ٹائون کی حدود سے بھی رنگے ہاتھوں گرفتار ہو چکا ہے۔ جب عید کے روز گھر سے تیار ہوکر نکلنے والی کمسن بچی کو اس نے اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم پولیس کی روایتی سستی اور نا اہلی کے نتیجے میں بوسیدہ سی آر او (کرمنل رجسٹریشن آفس) کے نظام کا فائدہ اٹھا کر وہ بچ نکلا تھا۔

امجد علی عرف ذاکر نے اس وقت اپنی اصل شناخت پولیس سے چھپائی تھی۔ اور اپنے بھائی کا شناختی کارڈ استعمال کرتے ہوئے خود کو اسلم ظاہر کیا تھا۔ لہٰذا پولیس ریکارڈ میں اس کی اصل شناخت بھی ریکارڈ نہیں ہوسکی تھی۔ یوں ملزم کو اگلے سات برس تک مزید درندگی کا موقع ملا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کے تفتیشی شعبے کے علاوہ کرائم رجسٹریشن آفس میں بھی خامیاں موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ پولیس ذرائع کے بقول اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس کیس کو سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس قرار دیا گیا۔ کیونکہ صوبے کی تاریخ میں آج تک کسی ایک ملزم نے اتنی بڑی تعداد میں بچیوں سے زیادتی کا اعتراف نہیں کیا۔ ان میں سے بارہ بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کے ڈی این اے شواہد موجود ہیں۔
ملزم امجد علی عرف ذاکر نے دوران تفتیش یہ ہولناک انکشاف بھی کیا تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا عادی ہوچکا تھا۔ جن کی عمریں آٹھ سے بارہ سال تک تھیں۔ اسے خود بھی نہیں یاد کہ وہ اب تک کتنی بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناچکا ہے۔ ملزم نے یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ جھنگ اور قصور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی دو ہزار سات سے دو ہزار بارہ تک ایک درجن سے زائد بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکا تھا۔ ان میں سے کئی کیسوں میں والدین نے رپورٹ درج نہیں کرائی۔ ملزم کے اس انکشاف کی روشنی میں جب سندھ پولیس نے پنجاب پولیس سے رابطہ کیا تو ملزم کا لعاب ڈی این اے نمونے کے طور پر کراچی پولیس سے حاصل کیا گیا۔ ملزم کے لعاب کا ڈی این اے پنجاب میں زیادتی کے سات کیسوں میں متاثر بچیوں سے ملنے والے ڈی این اے ٹیسٹ سے میچ کرگیا۔ تاہم بوجوہ پنجاب پولیس نے اب تک اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ ملزم سے تفتتیش کے لئے پولیس ٹیم کی جانب سے نفسیاتی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی گئیں اور اس کی کیس اسٹڈی کو محفوظ کرلیا گیا ہے۔ تاکہ اس طرح کے رویوں، حرکات و سکنات کے حامل دیگر مشکوک افراد کے خلاف تحقیقات میں کام لیا جاسکے۔