نواز طاہر:
پی ٹی آئی کا لانگ مارچ جی ٹی روڈ پر ’بار بار یوٹرن‘ کے باعث بھٹکتا ہوا دیگر شہروں میں جا پہنچا ہے۔ جس کی وجہ سے پارٹی کا گراف نیچے اور اختلافات کا گراف بڑھ رہا ہے۔ مرکزی رہنمائوں میں اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جبکہ پارٹی کے اندر سیاسی مصلحت پسندوں اور مخصوص مفادات رکھنے والوں کے باعث بھی لانگ مارچ کا مستقبل مبہم ہوگیا ہے۔ تاہم عمران خان نے ہفتے کو آئندہ پالیسی اوراسلام آباد پہنچنے کا ٹائم فریم دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب وزیرآباد حملہ کیس کی ابتدائی تحقیقات شروع ہونے کے بعد کپتان کے موقف میں تبدیلی کا امکان بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جارہا۔
یاد رہے کہ بعض رہنمائوں کی جانب سے مکمل تیاری نہ ہونے اور حالات سازگار نہ ہونے کے موقف کے ساتھ اختلافِ رائے کے باوجود پی ٹی آئی نے اٹھائیس اکتوبر کو لاہور کے لبرٹی مارکیٹ سے ایک ہفتے کے شیڈول کے ساتھ اسلام تک لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا۔ لیکن پہلے روز سے ہی شیڈول میں ’یو ٹرن ‘ شروع ہوگئے تھے اور وزیرآباد میں فائرنگ کے واقعے کے بعد اس میں یکے بعد دیگرے یوٹرن لئے گئے۔ جبکہ پارٹی کے اندر حقائق بیان کرنے والے کچھ رہنمائوں کوانضباطی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور بعض رہنمائوں کی اہم اطلاعات کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ جس میں فیصل واوڈا اور وزیرآباد سے تعلق رکھنے والے چوہدری افتخار سماں وڑائچ قابلِ ذکر ہیں۔ اسی دوران لانگ مارچ کو جلسوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
جمعرات کو جی ٹی روڈ پر دینہ میں پارٹی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی۔ جبکہ جی ٹی روڈ کے مغرب میں وسطی جنوبی پنجاب کے شہر خوشاب میں لاری اڈا چوک میں سیکریٹری جنرل اسد عمر کی قیادت میں جلسے ہوئے۔ تاہم ان علاقوں میں عمران خان کے انتخابی جلسوں جیسے اجتماع نہ بن سکے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق عمران خان پر حملے کے بعد دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ لانگ مارچ کپتان کی صحت یابی تک روک دیا جائے۔ دوسرا راستہ یہی تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا مومنٹم برقرار رکھنے کیلئے لانگ مارچ کی شکل تبدیل کردی جائے اور جن علاقوں سے کارکنوں نے شریک ہونا تھا۔ ان علاقوں میں جلسے کیے جائی اور کارکنوں کو متحرک کیا جائے۔
ذرائع کے بقول لانگ مارچ پھیلانے سے پارٹی کا گراف نیچے آیا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت سمجھتی ہے کہ اس سے کارکنوں کو اسلام آبادم آباد پہنچانے کیلئے متحرک کرنے میں مدد ملی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق پچھلے چند روز سے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کا زور کچھ ٹوٹا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ فرح گوگی جیسے لوگ ہیں اور بعض معاملات میں نیوٹرل طبقہ بھی سوال اٹھانے لگا ہے۔ جس کا جواب زیادہ تر لوگوں کے پاس نہیں اور عمران خان کے ساتھ وفاقی کابینہ میں شامل رہنے والے کئی رہنما بھی ان سوالوں کا جواب نہیں دیتے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے دیرینہ اور اب تک نظر انداز رہنے والے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنے ارد گرد کے حلقے کی کئی ایک واقعات کے بعد بھی ’صفائی‘ نہیں کی اور انہی لوگوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ جن کی وجہ سے جی ٹی روڈ پر بننے والا مومنٹم برقرار رکھنا چاہئے تھا۔ انہوں نے قیادت ہی ایسے لوگوں کو سونپ دی جن میں سے بعض لانگ مارچ کی تیاری نہیں رکھتے تھے اور کچھ کی رائے مختلف تھی۔ جبکہ پارٹی چیئرمین کے زخمی ہونے کی وجہ سے بھی نقصان پہنچا ہے۔
لیکن ان ذرائع کا کہنا ہے کہ امید ہے راولپنڈی میں اگر عمران خان صحت مند ہونے کی صورت میں قیادت کرتے ہیں تو یہ مومنٹم بحال ہوجائے گا۔ اسی جانب پی ٹی آئی کے معتوب رہنما فیصل واوڈا نے ایک بار پھر اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پارٹی سے کچھ لوگوں کو نکالنا پڑے گا۔ دوسری جانب وزیر آباد میں فائرنگ سے پہلے اس کی اطلاعات مختلف ذرائع سے عمران خان تک پہنچانے والے پارٹی رہنما چودھری افتخار سماں وڑائچ سے پارٹی چیئرمین کی ملاقات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری کو بھی اس حملے کے خدشات کے حوالے سے معلومات کی بنیاد پر اطلاع چودھری افتخار سماں نے ہی دی تھی۔ لیکن پارٹی رہنمائوں نے ’دیگر ذرائع‘ کا اظہار کیا اور چودھری افتخار سماں کو اتحادی جماعت مسلم لیگ ’ق‘ اور پی ٹی آئی گجرات کی مقامی قیادت کا ناقد اور سیاسی مخالف ہونے پر نظرانداز کردیا گیا۔
ادھر وزیرآباد فائرنگ کیس کے واقعے کی تحقیقات کرنے والی پنجاب پولیس کے سینئر افسران پر مشتمل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے ابتدائی کام شروع کر دیا ہے۔ جبکہ صوبائی محکمہ داخلہ نے وفاقی حکومت کا اعتراض درست تسلیم کرنے کے باوجود اسی جے آئی ٹی کو کام کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ محکمہ داخلہ پنجاب نے وفاقی حکومت کا مراسلہ درست تسلیم کر کے صوبائی انتظامیہ کو اپنے ریمارکس سمیت آگاہ کر دیا ہے کہ جے آئی ٹی میں وفاقی ایجنسی کی نمائندگی ہونی چاہئے۔ لیکن اس معاملے میں مزید پیش رفت کابینہ کی کمیٹی برائے امن و امان کے فیصلے کی روشنی میں ہوگی۔ جبکہ خود عمران خان اس جے آئی ٹی میں وفاقی ایجنسی کی نمائندگی نہیں چاہتے۔
ذرائع کے مطابق فائرنگ کرتے ہوئے موقع سے گرفتار ملزم نوید سے گیارہ روہ ریمانڈ کے دوران ایسے شواہد سامنے آسکتے ہیں۔ جن کی روشنی میں عمران خان کو حملے کی سازش تیار کرنے والوں کے بارے میں موقف میں تبدیلی بھی کرنی پڑ سکتی ہے۔ جبکہ پارٹی چیئرمین اعلان کرچکے ہیں کہ کل ہفتے کو وہ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے اور اس میں خود شریک ہونے کے حوالے سے حتمی ٹائم فریم دیں گے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اس ممکنہ اہم اعلان کے پیشِ نظر ہنگامی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی لاہور کے صدر شیخ امتیاز محمود کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ لانگ مارچ کی تیاریوں اور شرکت کیلئے تمام اسٹیک ہولڈر، ٹائونز کی تنظیم اور یوسی تنظیم کو تحریک انصاف لاہور کے بنائے گئے پلان ’اے‘ کے مطابق کام کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔