بلند پایہ صحافی اور منفرد تجزیہ نگار نذیر لغاری کی زندگی، کار ہائے نمایاں کا ایسا مرقع ہے کہ جس کا قرار واقعی احاطہ کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں۔ یہ کوئی دیومالائی کہانی ہی لگتی ہے کہ خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے والا ایک بچہ مال مویشی چَراتے، راج مستری کا کام کرتے ہوئے بھی پڑھائی سے رشتہ جوڑے رکھے۔ اور ادھوری تعلیم کے دور میں بھی اسے اپنی عمر سے کہیں بڑے اور نابغہ روزگار لوگوں سے نیاز بھی حاصل رہے۔ پھر اک روز وہی بچہ، چرواہے کی لاٹھی چھوڑ کر قلم اٹھائے تو ہم عصر اور جونیئر صحافیوں کے لیے یونی ورسٹی بن جائے۔ نذیر لغاری چار دھائیوں سے زائد عرصے سے صحافت سے منسلک ہیں۔ ان کا شمار چوٹی کے تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے۔ اک عمر پرنٹ میڈیا میں گزارنے اور سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر کے فرائض انجام دینے کے بعد تقریباً ایک عشرہ سے الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہیں اور ایک بڑے گروپ کی سربراہی کر رہے ہیں۔ علم اور فوک وزڈم (لوک دانائی) کا ایک بحر بیکراں ان کے سینے میں سمایا ہے۔ مگر انکسار ایسا کہ باید و شاید۔ سیاست، تاریخ، ادب، فلسفہ، عمرانیات اور ادب سمیت کون سا ایسا موضوع اور شعبہ ہے جس پر وہ گھنٹوں دل نشیں گفتگو نہ کر سکتے ہوں۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ صحافت میں نمایاں خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس لے چکے ہیں۔ اپنی جنم بھومی روہی چولستان سے عشق کرتے ہیں۔ سرائیکی ناول سمیت ایک درجن کے قریب کتابیں لکھ چکے ہیں۔ کھرے، دو ٹوک اور برجستہ نذیر لغاری کے ساتھ ایک طویل نشست کا احوال، انٹرویو کی شکل میں نذرِ قارئین ہے۔
ملاقات۔ سجاد عباسی
س: لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک لغاری اتنے سارے لوگوں پر بھاری کیسے ہوا۔ اس کا پس منظر کیا ہے؟ آپ کہاں پیدا ہوئے، بچپن کیسا گزرا، خاندان کتنا بڑا تھا؟
ج: یہ سب کچھ کسی ٹارگٹ یا منصوبے کے تحت نہیں ہوا کہ میں نے کبھی زندگی میں ہدف رکھا ہو کہ مجھے اس فیلڈ میں جانا ہے اور یہ بننا ہے۔ ہمارے ہاں اس طرح ٹارگٹ سیٹ کیے بھی نہیں جاتے۔ میں جس علاقے موضع کوٹ طاہر میرانی والا تحصیل جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوا کوئی سرسٹھ برس پہلے، وہاں دو قسم کا ماحول تھا۔ ایک کوہ سلیمان کے دامن میں ہماری مختصر سی آبائی زمین تھی۔ رودکوہی جو پہاڑی نہر کہلاتی ہے وہ ہماری زمینوں کی کاشت کاری کے کام آتی تھی اور وہ بارش جب کبھی ہو گئی، کبھی سال کبھی دو سال اور کبھی چار سال میں تو وہاں آبادی رہ پاتی تھی۔ بصورت دیگر نقل مکانی کرنا پڑتی تھی۔ کیونکہ ان علاقوں میں زندہ رہنے کے لیے آپ کا کلی انحصار کاشت کاری اور مال مویشی پر ہی ہوتا تھا۔ بیراج کے علاقے میں بھی ہماری بڑوں نے کچھ زمینیں لی تھیں مگر وہ بٹتے بٹتے اتنی کم ہو گئیں کہ ان کا ذکر کرنا ہی عجیب لگتا ہے۔ میرے والد کے پاس آبائی ملکیتی زمین کوئی دس کنال تھی اور دادی کی زمین کوئی ساڑھے تین کنال تھی جس میں سے ایک کنال پر ہمارے ایک رشتے کے ماموں نے قبضہ کر لیا اور وہ اب تک ان کے قبضے میں ہے۔ تو اس طرح ہمارے خاندان کے پاس کل ملا کر کوئی ساڑھے بارہ کنال زمین تھی۔ ظاہر ہے اتنی زمین سے روزگار نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہم بالعموم خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔ کچھ زمین جو پہاڑوں کی طرف تھی، وہ ہمارے والد سے ان کے ایک رشتے کے چچا نے ہتھیا لی تھی۔ کوئی دو بیل اور ایک کپڑوں کا جوڑا دے کر۔ یہ زمین کوئی تیرہ چودہ بیگھے یا ایکڑ رہی ہوگی۔ مگر یہ ’’رودکوہی‘‘ کی زمین تھی جس کا انحصار پہاڑی نہر پر تھا۔ تو یہ تھی ہماری کل بود و باش۔ خانہ بدوشی کی اس زندگی میں بھی پہلی سے نویں جماعت تک تو میں باقاعدگی سے پڑھتا رہا۔ اس کے بعد کی ساری تعلیم پرائیویٹ طور پر حاصل کی۔
س: ہمیں پہلے ان نو جماعتوں کی کہانی سننی ہے۔
ج: جی یہ جو نویں کلاس تک کا عرصہ ہے۔ اس میں کوئی ایک تعلیمی سال بھی ایسا نہیں ہے جس کے دوران میں کم از کم چھ ماہ یعنی آدھا برس اسکول سے غیر حاضر نہ رہا ہوں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ گھر والے میرے اسکول کے ٹائم ٹیبل کے ساتھ تو چلتے نہیں تھے۔ جہاں روزگار یا مزدوری ملنے کی آس ہوتی گھر کا گھر اٹھا کر وہاں چل پڑتے۔ یا کہیں ہماری پانچ آٹھ بھیڑوں کے چارے کا انتظام ہوتا تو وہاں شفٹ کر جاتے۔ لہٰذا تعلیم کا سلسلہ چھوٹ جاتا تھا۔ ایک بات جو شاید میرے ذہن میں تھی اور میرے والد کے ذہن میں بھی تھی کہ بس مجھے پڑھتے رہنا چاہیے۔ تو ہم جہاں بھی پہنچتے وہاں میرے والد کوئی نہ کوئی اسکول ضرور تلاش کر لیتے۔ جہاں میں جاکر پڑھ سکوں۔ وہ مجھے کسی نہ کسی قریبی اسکول میں بٹھا دیا کرتے پھر جب میں واپس آتا تو اپنے اسکول کے امتحان میں بیٹھ جایا کرتا۔ اپنی کلاس میں میرا شمار معقول بچوں میں ہوتا تھا جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ میں اس حوالے سے انکساری سے کام نہیں لوں گا کہ میں کوئی کمزور طالب علم تھا۔ پہلی کلاس میں مجھے یاد ہے جب ہم قاعدہ پڑھ رہے تھے تو ابھی ابتدائی صفحات پر ہی تھا کہ خاندان نے کوئی 40 میل دور منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا (تقریباً 65 کلو میٹر)۔ اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ہم لوگ مسلسل دو دن تک سفر میں رہتے تھے۔ ایک دن صبح اگر نکلتے تو درمیان کی رات سفر میں گزرتی۔ یہ سفر پیدل ہوتا جس میں گدھے، بھیڑیں، بیل بکریاں سب شامل ہوتے تھے۔ اگلے دن شام کو منزل پر پہنچتے تو سورج غروب ہو چکا ہوا۔ تو پہلی جماعت میں ہی مجھے خانہ بدوشی کا سامنا ہوا اور والد نے رودکوہی کے علاقے میں ایک اسکول میں داخل کرایا۔ میرے ایک ماموں جو مجھ سے چند جماعتیں آگے پڑھتے تھے، وہ بھی فیل ہوتے ہوتے بعدازاں میرے ہم جماعت بن گئے تھے۔ مگر پہلی جماعت میں چونکہ میں اکیلا ہی تھا تو مجھے لمبا سفر پیدل کر کے اسکول جانا پڑتا، چونکہ شوق تھا پڑھنے کا۔ لہٰذا بوجھ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اب میرا اندازہ ہے کہ کوئی تین چار کلو میٹر دور ہو گا۔ تو پہلے سال جب واپسی ہوئی تو معلوم ہوا کہ میں اپنی کلاس کے طلبا سے صرف ایک سبق پیچھے ہوں جو دو دن کے سفر کے دوران پڑھایا گیا تھا۔ پھر دوسری جماعت میں بھی خانہ بدوشی کا وہی عمل دہرایا گیا۔ تیسری جماعت آئی تو ہمارے خاندان نے ایک مختلف فیصلہ کیا۔ طے یہ ہوا کہ ہم سب کچھ بیچ باچ کر کہیں دور نکل جائیں گے۔ یہاں سے حیدرآباد، کراچی وہاں سے تربت، پھر گوادر سے سمندر عبور کریں گے۔ ان دونوں ہیومن ٹریفکنگ (Human Trafficking) بہت ہوا کرتی تھی۔ ہم لوگ چونکہ گھر میں بلوچی زبان بولتے تھے۔ لہٰذا ہمارے لیے کوئی اجنبیت بھی نہیں تھی کہ راستے میں کوئی مسئلہ ہوگا۔
س: یہ سفر شروع کیسے ہوا اور منزل کیا تھی قافلے کی؟
ج: جی ہم ٹرین کے ذریعے پہلے حیدرآباد پہنچے۔ خاندان کے لوگوں نے وہاں ایک دو ماہ مزدوری کی۔ بچے اور خواتین اس مزدوری سے مستثنیٰ تھے۔ جیسا کہ بتایا میں اس وقت تیسری جماعت میں تھا۔ والد نے مزدوری کر کے کچھ پیسے جمع کیے تو پھر ہم ٹرین کے ذریعے کراچی آگئے۔ یہاں بھی دو چار دن قیام کے بعد ہم نے کراچی سے تربت پیدل سفر شروع کیا۔ ہم کراچی سے حب، وندر، لسبیلہ سے ہوتے ہوئے آواران پھر تربت پہنچ گئے۔ اب تربت میں ایک ایسا واقعہ پیش آگیا جس کی وجہ سے ہمارا یہ سفر رک گیا۔ دراصل ہمیں گوادر جانا تھا جہاں سے لانچ میں بیٹھ کر غالباً یہ خیال تھا کہ ہم اومان شفٹ کر دیئے جائیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ اومان میں اب بھی بلوچ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہاں قسمت بدلنے کی امید تھی مگر ہمیں تربت سے واپس آنا پڑا۔
س: یعنی آپ کا قافلہ دوبارہ اپنے آبائی مقام کی طرف چل پڑا؟
ج: جی بالکل۔ ہم نے منزل کا خیال دل سے نکال دیا۔ قافلہ واپس چل پڑا۔ یہ پورا خاندان تھا جس میں میرے رشتے کے تین ماموں (والدہ کے سگے چچا زاد بھائی) کچھ ماموں زاد اور دیگر کئی لوگ تھے۔ یہ کوئی آٹھ دس کنبے تھے جو کاروان کی صورت چل رہے تھے۔ کچھ دوسری بستیوں کے لوگ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم سب کی روانگی اور واپسی ساتھ ہی ہوئی۔ ہم نے کراچی کے لیے پھر پیدل واپسی کا سفر اختیار کیا۔
س: تربت تک کے سفر میں کتنے دن لگے؟
ج: میرا خیال ہے کوئی آٹھ دس دن لگے ہوں گے۔ البتہ لسبیلہ سے آگے خواتین اور بچوں کو ایک گاڑی نے پندرہ بیس کلو میٹر کی لفٹ دی تھی۔ ان میں، میں بھی شامل تھا۔ شاید وہی سفر گاڑی کا تھا۔ باقی سارا راستہ ہم پیدل چلتے رہے۔ کراچی سے تربت تک۔ یاد آیا کہ تربت میں ہم نے کھجوروں کے باغ میں کیمپ لگایا تھا۔
س: آپ نے بتایا کہ کراچی تک ٹرین میں گئے تھے۔ گائوں سے ٹرین تک کا سفر کیسے کیا؟
ج: یہ بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ میں نے پہلی بار تیسری جماعت میں بس کی شکل دیکھی جب ہم اس طویل سفر کے لیے گائوں سے نکلے۔ گائوں سے سڑک کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھی۔ میں نے روڈ بھی پہلی بار دیکھا کہ ایسا سیدھا اور کارپیٹڈ راستہ بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ پھر جب سب لوگوں کو بٹھانے کے لیے بس رکی تو میں اسے دیکھ کر خوف زدہ ہو کر بھاگ گیا کہ یہ کیا بلا آگئی (قہقہہ) کچھ لوگ میرے پیچھے بھاگے اور پکڑ کر مجھے اس ’’مصیبت‘‘ کے اندر بٹھا دیا۔ اب میرا خوف دوسری قسم کا تھا کہ بس اندر سے ایک جگہ رکی ہوئی ہے اور آس پاس کے مناظر بھاگ رہے ہیں۔ یہ میرے لیے عجیب تجربہ تھا کہ ہم تو ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں مگر درخت، مکانات اور بازار پیچھے کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ (جاری ہے)