نیو دہلی: وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے نیو یارک میں گزشتہ روز دیئے گئے بھارتی وزیراعظم نریدر مودی کے خلاف بیان نے بھارت میں آگ لگادی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیکڑوں کارکنان کی جانب سے بلاول بھٹو کے بیان پر دہلی میں قائم پاکستانی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیا اور نعرے بازی کے ساتھ وزیر خارجہ سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس نے بی جے پی کارکنوں کو پاکستانی سفارتخانے کی طرف احتجاج کرنے سے روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیں تاہم، مظاہرین نے پہلے دور کی رکاوٹیں پھیلانگ کے سفارتخانے کی طرف احتجاج کرنے لگے۔
بھارتی پولیس نے مظاہرین کو چانکیہ پوری علاقے میں رکاوٹوں کی دوسری لائن پر روک دیا جہاں واٹر کینن بھی رکھے گئے جب کہ بی جے پی کے کچھ کارکنوں کو پولس نے حراست میں بھی لے لیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز نیو یارک میں وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی جانب سے پاکستان کو دہشتگردی کا مرکز قرار دینے اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی مہمان نواز کرنے کے بیان پر کہا تھا کہ ’ اسامہ بن لادن مر چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی آج بھارت کا وزیر اعظم ہے جس پر وزیر اعظم بننے سے پہلے امریکہ میں داخلے پر پابندی تھی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے پاکستانی وزیر خارجہ کے خلاف بیان کو ’ شرمناک اور توہین آمیز’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے خلاف ہفتے کو ملک بھر میں احتجاج کرے گی۔
بی جے پی نے جمعہ کے روز ایک بیان میں کہا، ’ان کا تبصرہ انتہائی توہین آمیز، ہتک آمیز اور بزدلی سے بھرا ہوا ہے اور یہ صرف اقتدار میں رہنے اور (پاکستان) حکومت کو بچانے کے لئے دیا گیا ہے۔‘
بھارت کی حکمران جماعت نے 17 دسمبر کو ملک بھر کے تمام دارالحکومتوں میں احتجاج کرے گی اور اس کے ارکان پاکستان اور اس کے وزیر خارجہ کے پتلے جلائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو نے جس طرح کی زبان استعمال کی ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے جو سیاست کی حقیقی روح کی عکاسی نہیں کرتی اور عوامی زندگی میں شائستگی کی حد کو بھی پار کرتی ہے۔
بی جے پی کے بیان میں کہا گیا کہ بلاول بھٹو کے ’توہین آمیز‘ بیان نے عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو مزید خراب کیا ہے۔
بھارتی وزیر مملکت برائے امور خارجہ میناکشی لیکھی نے بلاول بھٹو کی طرف سے نریندر مودی کو گجرات کا قصائی’ پر کہا کہ پاکستان سے اس سے بہتر کچھ بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ “عام طور پر کسی بھی خودمختار ملک کے وزیر خارجہ اس طرح سے بات نہیں کرتے ہیں۔