طرابلس: لیبیا کی ایک عدالت نے 17 افراد کو داعش میں شامل ہونے اور اس کے نام پر مظالم ڈھانے کا مجرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزائیں سنا دی ہیں۔ لیبیا میں اسے اپنی نوعیت کا اہم عدالتی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ملکی استغاثہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق طرابلس کی ایک عدالت نے اپنے اس فیصلے میں دو افراد کو عمر قید اور 14 دیگر کو اس سے کچھ کم قید کی سزائیں بھی سنائی ہیں۔ جن 17 افراد کو موت کی سزا دی گئی ہے، ان کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے، انہیں داعش (آئی ایس) سے منسلک دیگر کارروائیوں، ریاست اور سماجی امن پر حملے کے ساتھ ساتھ مغربی شہر صبراتہ اور اس کے گردونواح میں مسلح تشدد کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ان مجرمان کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے، مقدمے میں شامل افراد نے کل 53 افراد کو ہلاک، عوامی عمارتوں کو تباہ اور درجنوں لوگوں کو لاپتہ کیا۔ پیر کے روز جن افراد کو یہ سزائیں سنائی گئی ہیں، ان کی شہریت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ شام اور عراق کی طرح لیبیا میں مسلح کارروائیاں کرنے والے داعش کے گروہ میں نہ صرف مقامی بلکہ کئی دیگر ملکوں کے شہری بھی شامل ہوئے تھے۔سن 2011 میں ڈکٹیٹر معمر قذافی کی حکومت گرانے اور انہیں ہلاک کرنے والی بغاوت کے بعد لیبیا میں طاقت کا خلا پیدا ہو گیا تھا۔ ملک بھر میں تشدد کی ایک ایسی لہر اٹھی، جس کے اثرات ابھی دس برس بعد بھی اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ تب لیبیا میں پیدا ہونے والے طاقت کے اس انخلا کو آئی ایس سمیت مقامی مسلح گروہوں کی ایک بڑی تعداد نے پر کیا تھا۔شدت پسند گروپ داعش نے سن 2015 کے وسط سے لے کر اگلے سال بے دخل ہونے تک قذافی کے آبائی شہر سرت کو اپنے اڈے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ جب داعش کو اس شہر میں شکست دی گئی تو کچھ جہادی مارے گئے، کچھ پکڑے گئے اور کچھ نے ملک کے وسیع ریگستان یا مغربی لیبیا کے شہروں میں پناہ لے لی تھی۔آئی ایس کے جنگجوں نے فروری 2016 میں مختصر طور پر صبراتہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا لیکن حکومتی دستوں نے اسے جلد ہی وہاں سے بے دخل ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔لیبیا نے سن 2010 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا، جس میں سزائے موت پر عالمی پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے کوئی قابل اعتبار اعداد وشمار موجود نہیں ہیں کہ اس ملک میں سالانہ بنیادوں پر کتنے افراد کو موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔