روس پاکستان میں دہائیوں کی دوریاں سمٹنے لگیں ۔سفرنامہ روس۔ پہلی قسط

سجاد عباسی

جدید روس کیسا ہے؟ وہاں کے شہری کیا سوچتے ہیں؟ حکومت کس منزل کی جانب گامزن ہے؟ روسی میڈیا اور تھنک ٹینکس مستقبل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ یہ جاننے نکلے ہیں ’’امت‘‘ کےگروپ ایڈیٹر سجاد عباسی۔ اسلام آباد سے ماسکو جانے والے میڈیا ڈیلی گیشن میں پاکستانی صحافت کے کئی بڑے نام شامل تھے۔ جنہوں نے روس کا ایکسرے اپنی اپنی تجربہ کار نگاہوں سے کیا۔ سجاد عباسی کا سفر نامہ اس سفر کی روداد ہی نہیں۔ جدید روس کی سوچ کا تجزیہ بھی ہے۔ (ادارہ)

دوحہ ایئرپورٹ کےرن وے سے قطر ائیر ویز کا طیارہ فضا میں بلند ہوا تو ہم نے کسلمندی سے گھڑی پر نگا ہ ڈالی۔ صبح کے پونے 7 بجے تھے، 5 گھنٹے دس
منٹ بعد ہمیں اپنی منزل پر پہنچنا تھا، اور ہماری منزل تھی روس کا دارالحکومت ماسکو۔ اسلام آباد سے کراچی اور کراچی سے دوحہ کے سفر کے
دوران رات آنکھوں میں کٹ گئی تھی اور اب نیند کا غلبہ تھا۔ فضائی میزبانوں کی دلآویز مسکراہٹ اوررٹی رٹائی معلوماتی گفتگو تو روایتی ہی
تھی ، بس عربی کی حلاوت سماعت کے راستے دل میں اتر رہی تھی۔ اب ہمارا ارادہ جہاز کی کشادہ نشستوں کا فائدہ اٹھا کر نیند پوری کرنے کا تھا تاکہ
یورپ کے سب سے بڑے شہر کو جاگتی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔

وہ ماسکو جس کی اسلام آباد کے ساتھ کڑوی کسیلی تاریخ کم و بیش تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔مگر اب وقت نئی کروٹ لے رہا ہے ۔ گزشتہ نصف دہائی کے دوران دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادت کا فی قریب آچکی ہے ۔ برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ اور اب اس میں گرم جوشی کی بھاپ بھی اٹھتی دکھائی دینے لگی ہے ۔ عالمی اور علاقائی سطح پر نئی صف بندیاں ہورہی ہیں، پاکستان نے” ہل من مزید “ کے عادی پرانے اتحادی کے متبادل آس پڑوس میں تلاش کرنا شروع کردئیے ہیں،ہر گزرتے دن کے ساتھ پرانے اتحادی کی فرسٹریشن میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ دباوٴ بڑھانے کی خاطر ہمارے روایتی دشمن کو زیادہ پر جوش انداز سے جھپیاں ڈال رہا ہے۔ مگر اب اس کی پروا اسلام آباد کو ہے نہ پنڈی اس کو خاطر میں لارہا ہے، یعنی ”جڑواں شہر “ پڑوس پر انحصار کیلئے ایک ہی پیج پر ہیں۔

ماسکو کا Domodedovo ایئرپورٹ جہاں سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے 

ہم ماسکو جانے والے میڈیا ڈیلی گیشن کا حصہ ہیں، جسے روس کے مختلف صحافتی اداروں کے ذمہ داران، تھنک ٹینکس اور حکام سے ملاقاتیں کرناہیں۔ تاریخ کےجھروکوں میں جھانکتے جھانکتے ہماری آنکھ لگ گئی جو فوڈ ٹرالی کی مترنم کھڑکھڑاہٹ اور فضائی میزبان کی کھنکتی آواز کے ساتھ کھلی ،ان دونوں کا ربط کہیں ہمارے پیٹ سے اٹھنے والی "دہائیوں” سے بھی یقیناً ہوگا جہاں قل ھو اللہ کا ورد جاری ہوچکا تھا۔ منیو تھمایا گیا تو اس میں مونگ کی دال
دیکھ کر بھوک کے ساتھ ہماری آنکھیں بھی چمک اٹھیں کہ مبادا اس کے بعد اگلے سات دن اس طرح کی دیسی ڈش نصیب ہو نہ ہو ، سوجھٹ سے آرڈر کیا۔ ٹرےوصول پانے کے بعد اپنی پسندیدہ ڈش کو بلا تاخیر ”بے نقاب “کیا تو دال کیہم شکل کوئی ایسی چیز سامنے آئی جس کی صورت ہمارے لئے قطعی اجنبی تھی،چکھنے پر انتہائی بد ذائقہ اور نتھنوں کو چیر دینے والی بو لئے ہوئے تھی۔ایک آدھ نوالہ زہر مار کر کے کولڈڈرنگ کے ساتھ پیسٹری کھالی اور پیٹ
کوتھپک کر سلادیا،، اس دوران تین گھنٹے کا سفر کٹ چکا تھا اور ہمارے آس پاس کی نشستوں پر بیٹھے کئی مسافر آپس میں گھل مل چکے تھے ۔ ان میں سےبیشتر روسی شہری ہی تھے ۔ کچھ مردوزن واش روم جانے والی قطار میں کھڑےتھے اور وقت گزاری کیلئے باہم "شیر و شکر” ہورہے تھے ۔

غیرملکی سیاحوں میں چینی باشندے نمایاں ہیں

یہ مناظر دیکھ کریہ تو اندازہ ہوگیا کہ روسی شہریوں کو اس قدر ”شخصی آزادی “حاصل ہے جسےضبط تحریر میں لانا آسان نہیں ،مگر اتنا ضرور ہوا کہ ان مناظر نے ہماری رہی سہی نیند بھی اڑادی۔ بعد میں ماسکو کی شاہراہوں اور پبلک مقامات پرہمیں اس طرح کے بے شمار منظر دیکھنے کو ملے، جو کسی مومن کو آزمائش میں ڈالنے کیلئے کافی ہوتے ہیں ، مگر ظاہر ہے کہ ضبط اور صرف ضبط کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔  زیادہ دلچسپ اور قدرے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ "من تو شدم،تو من شدی ” کا منظر پیش کرنے والے کئی جوڑے شادی شدہ ہوتے تھے، بطور سندبعضوں کے ساتھ بچے بھی ہوتے، مگر والہانہ پن ایسا کہ دیکھنے والا حسد ورشک کے ملے جلے جذبات سے عش عش کر اٹھے۔ وطن عزیز میں تو میاں بیوی موٹرسائیکل پر بھی اس قدر احتیاط سے بیٹھتے ہیں کہ باہم مس ہونے سےخدانخواستہ  نکاح ٹوٹنے کا خطرہ درپیش ہو۔

خیر، بات ہو رہی تھی جہاز کی ، تو آنکھ کھلنے پر ایک اور دلچسپ منظر بھی دیکھنے کو ملا۔ ایئر لائن نے زیادہ کولنگ کے پیش نظر طیارے کے مسافروں کو
کمبل نما گرم چادریں فراہم کی تھیں اور اب بیشتر مسافر ان کمبلوں میں لپٹے ہوئے تھے مگر روسی مسافروں کی اکثریت جو پہلے ہی لباس کی قلت کا
شکار تھی ، وہ ٹی شرٹ اور شاٹس میں بھی مزے سے سورہے تھے ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں سال کے 6 مہینے ٹمپریچر مائنس میں رہتا ہے جو دسمبر جنوری میں مائنس چالیس تک جا پہنچتا ہے ۔ لہٰذا جس ٹھنڈ پر ہماری جان نکلنے لگتی ہے، اس درجہ حرارت کو وہ انجوائے کرتے ہیں۔ ویسے ہماری خوش قسمتی تھی کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے اگلا ایک ہفتہ وہاں درجہ حرارت آئیڈیل یعنی 10سے 25 ڈگری کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

رن وے کا منظر پیش کرتی  سڑکیں ماسکو کی شناخت ہیں

 کوئی بارہ بجے کے قریب طیارہ ماسکو کی فضائی حدود میں داخل ہوا تو زمینی مناظر بھی آنکھیں خیرہ کردینے والے تھے ۔ ماسکو شہر کا تین چوتھائی حصہ
سبزے سے ڈھکا ہوا تھا۔ بیچ بیچ میں کہیں عمارتیں اور سڑکیں دکھائی دے رہی تھیں۔ ماسکو کے Domodedovo یا DME ائیر پورٹ پر پاکستانی سفارت خانے کےحکام قونصلر بلال وحید کی قیادت میں ہمارے منتظر تھے۔ گرین چینل سے گزرنے، عقابی نگاہوں والے نوجوان روسی امیگریشن آفیسر کے کاوٴنٹر سے وفد کے تمام ارکان کو کلیئرنس لینے اور سامان وصول کرنے میں کل ایک گھنٹہ لگا جس کے بعد ہم ایک جدید شکل و صورت کی  حامل مسافر کوچ میں بیٹھ کر ہوٹل روانہ ہوگئے جو ماسکو شہر کے وسط میں واقع تھا۔ ائیر پورٹ پر ہمیں کئی مغربی اور ایشیائی ممالک کے باشندوں کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے شہری بھیدکھائی دئیے۔

ہمیں بتایا گیا کہ صرف ماسکو شہر میں 5 بین الاقوامی ہوائی اڈے اور 12 جدید ریلوے اسٹیشن ہیں ۔ جہاں غیر ملکی شہریوں کا تانتا بندھارہتا ہے اور ان کی اکثریت ظاہر ہے سیاحت کی غرض سے آتی ہے ۔ ائیر پورٹ پر ہمیں چینی باشندوں کے ”غول کے غول“ دکھائی دئیے جو منظم انداز میں گروپوں کی صورت میں سفر کرتے ہیں اور ٹیم لیڈر نے چینی پرچم تھام رکھا ہوتا ہے،جس کے سائے تلے سب ایک ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے اس پر تبصرہ کرتےہوئے کہا کہ آنے والے برسوں میں اگر روس میں جا بجا ینگ ژاوٴ ایروف اور شنگ شانگ ڈی متری قسم کی مخلوق وجود میں آجائے تو اس پر کسی کو حیرت نہیں
ہونی چاہیے ۔اس پر ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا۔ہم یہ بتانا بھول گئے کہ ایئر پورٹ سے نکلتے ہی پاکستان کا وقت اور روس کی کرنسی آگے نکل گئی تھی
،یعنی ہمیں گھڑی پاکستانی وقت سے دو گھنٹے پیچھے کرنا پڑی جبکہ ذاتی خرچ کیلئے کچھ روسی روبل خریدنا پڑے جن کی مالیت پاکستانی روپے کے مقابلے میں تقریباً دگنی تھی ۔

ہماری بس فراٹے بھرتی جارہی تھی اور ہم باہر کے مناظرمیں کھوئے ہوئے تھے۔ کشادہ سڑکیں۔ ایک خاص ترتیب اور مناسب فاصلے پر قطار اندر قطار چلتی جدید چمچماتی گاڑیاں، سبزے اور درختوں میں گھری خوبصورت عمارتیں، ماسکو کی شان اور امارت کا پتہ دے رہی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ
ماسکو درجنوں بلکہ اب تو سینکڑوں ارب پتی افراد کا مسکن ہے ۔یہاں فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے امیر لوگ رہتے ہیں، مگر یہ روسی زیادہ تام جھام، نمودونمائش اور ہٹو بچو کے قائل نہیں ہیں، کہا جاتا ہے کہ ماسکو  غیر ملکیوں کیلئے مہنگے ترین شہروں میں سے ایک ہے ۔ یہ یورپ کے
تمام شہروں کے مقابلے میں زیادہ بلندی پر واقعہ ہے ۔ سیاسی، اقتصادی،تجارتی ، تعلیمی اور سیاحتی مرکز ہے ۔ یہاں واقع روسی صدر کی رہائش گاہ
"کریملن” مرئی اور غیر مرئی طاقت کا مرکز تصور کی جاتی ہے۔ روسی پارلیمنٹ اور کئی اہم سرکاری عمارتیں بھی یہاں واقع ہیں۔

فن تعمیر کا شاہکار بلند و بالا عمارتیں ماسکو کا حسن ہیں

راستے میں ایک جانب ہمیں طاقتور خفیہ ایجنسی” ایف ایس بی” کا دفتر بھی دور سے دکھایا گیا جو کسی زمانے میں کے جی بی کہلاتی تھی، اس کی طاقت کا منبع بھی کریملن ہی ہے ۔اس عمارت سے نکلنے والی طاقتور شعاعیں نہ صرف روس کے طول و عرض میں موجودہردی روح کی اسکریننگ کرتی ہیں بلکہ یہ ادارہ اندرونی و بیرونی سازشوں اور منصوبوں کو کاوٴنٹر کرنے کیلئے بھی ہر دم مستعد رہتا ہے۔ اس کا اہم سبب ٹوٹ پھوٹ کے بعد ایک بار پھر ابھرتی ہوئی سپرپاور کے طور پر سامنے آنے والے روس کو درپیش ان گنت خطرات ہیں جن سے نمٹنے کیلئے اسے چومکھی لڑائی لڑنا پڑتی ہے اور اس لڑائی میں ایف ایس بی کا کردار فرنٹ لائن کا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہر سرکاری و نجی ادارے میں کہیں نہ کہیں ان کے لوگ موجود ہوتے ہیں جو مانیٹرنگ کا سخت اور مربوط نظام قائم کئے ہوئے ہیں۔

سفارتخانے کے افسران کی دلچسپ اور معلوماتی گفتگو اور وفد کے ارکان کے پرتجسس سوالات کے دوران ایک گھنٹے کا سفر کٹنے کا پتہ بھی نہ چلا اور ہم
ہوٹل پہنچ گئے جہاں دو تین گھنٹے آرام کے بعد فریش ہو کر ہمیں پانچ بجےلابی میں پہنچنا تھا۔ہماری اگلی منزل ماسکو کی مشہور زمانہ ارباط اسٹریٹ
تھی جس کی رنگینیاں ہر آنے والے پر سحر طاری کردیتی ہیں۔ (جاری)