میگزین رپورٹ:
بخاری و مسلم شریف میں مذکور ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’جب رات اپنے پر پھیلا لے تو اپنے بچوں کو گھروں میں رکھو، کیونکہ اس وقت شیاطین زمین پر منتشر ہو جاتے ہیں۔ پس جب رات کی ایک ساعت گزر جائے تو اپنے دروازے بند کر لو اور اللہ کا نام لو۔ کیونکہ شیطان کسی بھی بند دروازے کو نہیں کھولتا۔ اور اپنی پانی کی تھیلی کا منہ بند کر لو اور اس پر اللہ کا نام لو اور اپنے برتنوں کو ڈھانپ دو یا اس پر کوئی چیز رکھ دو اور اس پر اللہ کا نام لو اور سونے سے قبل اپنے چراغوں کو بجھا دو‘‘۔
اس حدیث مبارکہ میں پانچ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اپنے بچوں کو روکنا، دروازے بند کرنا، پانی کی تھیلیوں کا منہ بند کرنا، برتنوں کو ڈھانپنا اور چراغ کو گل کر دینا۔ پس پہلی تین باتوں کی علت اور وجہ آپؐ نے اس حدیث میں ہی بیان کر دی ہے۔ جبکہ آخری دو چیزوں کی وجہ ایک دوسری حدیث میں مذکور ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ شیطان نہ تو بند دروازہ کھولتا ہے اور نہ ہی بند منہ کی پانی کی تھیلی کو اور ڈھکے ہوئے برتن کو۔ اسی طرح آخری بات کے بارے میں ابو دائود کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ نبی کریمؐ ایک چادر پر تشریف فرما تھے اور چراغ جل رہا تھا کہ ایک چوہا آیا اور اس نے چراغ کو الٹ دیا۔ جس کی وجہ سے آپ کی چادر کا ایک درھم کے برابر حصہ جل گیا۔ پس آپؐ نے فرمایا کہ جب تم سونے لگو تو چراغوں کو بجھا دو۔ کیونکہ شیطان اس قسم کی باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے تاکہ تمہیں جلا دے۔ اس کی شرح میں امام حافظ کا کہنا ہے کہ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ اس لیے وہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ انسان کو کسی قسم کا نقصان پہنچا سکے۔ اسی طرح صحیح مسلم کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ اپنے جانوروں اور بچوں کو غروب شمس کے بعد باہر نہ بھیجو۔ یہاں تک کہ عشا کی کالک چھا جائے۔ کیونکہ غروب شمس کے بعد شیاطین عشا کی کالک چھا جانے تک زمین پر پھیل جاتے ہیں۔
ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’جب تم گدھے کو رینکتے ہوئے سنو تو اللہ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے، کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ لیتا ہے۔ اور جب تم مرغ کی اذان سنو تو اللہ سے رحم مانگو، کیونکہ وہ فرشتوں کو دیکھتا ہے‘‘۔
ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک صحابیؓ نے مجھے اس بات کی خبر دی کہ ایک مرتبہ وہ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آسمان سے ایک تارا ٹوٹا۔ اللہ کے رسولؐ نے ہم سے دریافت فرمایا کہ تم زمانہ جاہلیت میں اس موقع پر کیا کہتے تھے؟ ہم نے جواب دیا کہ ہم کہتے تھے کہ اس رات میں ایک عظیم شخص پیدا ہوا اور ایک عظیم شخص اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ یہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کی نشانی ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ جب تمہارا رب کوئی اہم ترین فیصلہ صادر فرماتا ہے تو عرش کو تھامنے والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس تسبیح کو دیکھتے ہوئے پہلے آسمان اور بعد ازاں تمام آسمانوں کے فرشتے تسبیح کرتے ہیں۔ یہاں تک یہ خبر دنیا کے آسمان کے فرشتوں تک پہنچتی ہے۔ جب جنات کو اس بات کا پتا چلتا ہے تو وہ اس خبر کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں آسمان کی طرف جاتے ہیں۔ تاکہ اپنے آقائوں کو اس کی اطلاع پہنچا سکیں۔ پس جو بھی آتا ہے اسے ایک شہاب مارا جاتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپؐ سے دریافت کیا کہ یارسول اللہؐ، بعض اوقات ساحر اور کاہن کسی چیز کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں اور وہ درست ثابت ہوتی ہے۔ آپؐ نے جواب دیا کہ ’’یہ وہی بعض کلمات ہوتے ہیں جنہیں بعض جنات اچک کر لے آتے ہیں اور اپنے آقا کے کان میں اس کی خبر دے دیتے ہیں۔ پس اس کا آقا جو چاہے اس میں جھوٹ کا اضافہ کر لیتا ہے‘‘۔
صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ ابن مسعودؓ کا کہنا ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’تم میں سے ایسا کوئی بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس کا ایک ساتھی جن اور ساتھی فرشتہ مقرر نہ کیا ہو‘‘۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ کیا آپ بھی یا رسول اللہ؟۔ آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ’’میں بھی لیکن اللہ نے میری مدد فرمائی اور مجھے اس پر غالب فرما دیا۔ پس اب وہ مجھے سوائے خیر کی باتوں کے کسی اور طرف توجہ نہیں دلاتے‘‘۔ یہاں پر میں اس بات کی وضاحت چاہوں گا کہ یہ صرف اللہ کی جانب سے رسول اللہؐ کے ساتھ خاص تھا کہ اللہ نے آپؐ کے ساتھ موجود جن کو آپؐ کا تابع بنا دیا تھا۔ وگرنہ انسان کے نیک اعمال کی وجہ سے اگرچہ جنات اور شیاطین انسان سے خوف کھاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ انسان کو کسی بھی لمحے بھٹکانے کی راہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ سے شیطان اگرچہ ان کے مضبوط ایمان اور راسخ العقیدہ ہونے کی وجہ سے خوف تو کھاتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ ان کا تابع نہیں ہوا تھا۔ پھر اس بات میں یہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ اگر کوئی عام مسلمان آپؐ کے علاوہ بھی اپنے ساتھ موجود جن یا شیطان پر قابو پالے تو پھر دنیا میں انسان کا امتحان لینے کی حکمت جاتی رہے گی۔ یہ بات عین ممکن ہے کہ مومن اپنے اعمال، طاعات اور قرأت قرآن کے زور پر اپنے شیطان کو کمزور کر دے۔ پس وہ اسے سیدھے راستے سے بھٹکانے کی جرأت نہ کرے۔ جیسا کہ ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث میں آپؐ کا قول مذکور ہے کہ ’’مومن اپنے شیطان پر اس طرح قابو پا سکتا ہے جیسے تم میں سے کوئی سفر کے دوران اپنے اونٹ پر قابو رکھتا ہے‘‘۔
تمام علمائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ جنات کے نام پر کوئی جانور ذبحہ کرنا نہ صرف اس جانور کو حرام اور مردار کرنا ہے بلکہ یہ ایک شرک بھی ہے۔ پس کسی بھی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اسے کھائے یا اسے ذبحہ کرنے کی رسم میں حصہ لے۔ یہ حقیقت ہے کہ زمانہ جاہلیت کی طرح موجودہ زمانے میں بھی یہ رسم زور پکڑ رہی ہے۔ جو سراسر جاہلیت پر مشتمل ہے۔ پس جنات کے نام پر ذبح کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہوتی ہے کہ اس طرح جنات ہم سے خوش رہیں گے اور انسان کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے۔ جو سراسر غلط بات ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بغیر کوئی بھی مخلوق بشمول جنات کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
زمانہ قدیم کے لوگ اس رسم کے ساتھ خاصے منسلک تھے جس کی وجہ سے جنات اور شیاطین ان سے اپنی مرضی کے کام کروایا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان کامل اور مضبوط ارادے کے ساتھ جنات کے اس مطالبے کو رد کرے تو جنات فوری طور پر ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔ علامہ شمس الدین کا کہنا ہے کہ اسلام سے قبل لوگوں کی عادت تھی کہ دریائے نیل کا بہائو باقی رکھنے کے لیے ہر سال اس میں ایک حسین و جمیل لڑکی کی قربانی دیا کرتے تھے۔ ورنہ جنات اور شیاطین پانی کا بہائو روک دیا کرتے تھے۔ جب حضرت عمرؓ جیسے کامل ایمان صحابی کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپؓ نے نہ صرف اس رسم کو ختم کرایا۔ بلکہ آپؓ کے خوف سے شیاطین اور جنات نے دوبارہ کبھی اس چیز کا مطالبہ ہی نہیں کیا۔ یہاں پر میں یہ وضاحت کروں گا کہ آج بھی لوگ شیاطین اور جنات بد وغیرہ کے اثرات دور کرانے کے لیے ایسے بدعاملین کے پاس جاتے ہیں جو ان سے مخصوص علامات کے حامل جانور منگواتے ہیں اور پھر اسے جنات و شاطین کے نام پر قربان کر کے اس کا خون مریض کو لگاتے ہیں۔ اس طرح وہ جنات کو خوش کر کے نہ صرف اپنا ایمان ختم کرتے ہیں بلکہ انسانیت کی ایک بڑی تعداد کو گمراہی کے اندھیرے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کرنے والے پر اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے۔ حدیث شریف میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کرتا ہے۔