کراچی(امت نیوز)مواچھ گوٹھ کا علاقہ علی محمد گوٹھ ان دنوں پراسرار بیماری کی لپیٹ میں ہے ۔کئی اموات بھی ہوچکی ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ متعلقہ حکام کے پاس وجہ جاننے کے لیے ٹیسٹ کرانے کے پیسے ہی نہیں۔
ابتدائی طور پرکہا گیا کہ یہ اموات متاثرہ علاقے میں قائم غیر قانونی فیکٹریوں سے خارج ہونے والے مضر صحت دھویں کے باعث ہوئی ہیں۔ لیکن سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹ نے ماحولیاتی آلودگی کے امکان کو رد کر دیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بیماری متعدی بیماری یا زہریلے کھانے سے ہوسکتی ہیں۔
انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹ منظر عام پر آجانے کے بعد انتظامیہ نے اس پر اسرار بخار سے جاں بحق افراد کا پوسٹ مارٹم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں آج اس بیماری سے جاں بحق ہونے والے بچے عبدالحلیم کی میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول اسپتال کراچی لایا گیا لیکن کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود اس کا پوسٹ مارٹم نہیں ہو سکا۔
پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر سمیعہ سید نےبتایا کہ میڈیکو لیگل افسر کو پوسٹ مارٹم کرنے پر اعتراض نہیں لیکن ٹیسٹ کے لیے حاصل کیے گئے نمونوں کو جامعہ کراچی میں واقع انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائینسز کے انڈسٹرئیل اینالیٹیکل سینٹر بھیجا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ لیبارٹری انتظامیہ سے ٹیسٹ کے لیے رابطہ کیا گیا ہے اور انہوں نے بتایا کہ ٹیسٹ پر 56 ہزار روپے لاگت آئے گی۔
پولیس سرجن کا کہنا تھا کہ ڈیپارٹمنٹ کے پاس اتنے فنڈ موجود نہیں کہ ٹیسٹ کے اخراجات برداشت کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی محکمہ صحت کو بتا دیا ہے کہ ٹیسٹ کے لیے فنڈز دستیاب نہیں اور اگر محکمہ صحت فنڈز جاری کر دے تو بچے کا پوسٹ مارٹم کر کے نمونے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھیج دیئے جائیں گے
واضح رہے کہ کراچی کے ضلع کیماڑی میں واقع علی محمد گوٹھ کے رہائشی پراسرار بخار کی لپیٹ میں ہیں اور اہل علاقہ کے دعوؤں کے مطابق 20 افراد، جن میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے، اس نامعلوم بیماری سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اس نامعلوم بخار کا انکشاف رواں ماں 26 جنوری کو ہوا جس بعد انتظامیہ حرکت میں آ گئی۔ متاثرہ علاقے میں ڈاکٹرز کی ٹیمیں روانہ کی گئیں اور اس پراسرار بیماری کے بارے میں پتہ لگانے کے لیے تحقیقات کا آغاز ہوا۔