نوازطاہر:
تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کیخلاف بدھ کو دو عدالتوں میں پیش نہ ہونے پر ضمانت کی درخواست مسترد کردی گئی۔ عمران خان کو اسلام آباد کی عدالت سے تو فوری ریلیف مل گیا۔ تاہم لاہور ہائیکورٹ نے لاہور میں موجود ہونے کے باوجود پیش نہ ہونے پر ریلیف دینے سے انکار کردیا۔جس کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین کے سر پر گرفتاری کی تلوار لٹک گئی ہے۔
دوسری جانب عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے بعد زمان پارک میں ایک بار پھر کارکنوں کیلئے ہنگامی حالت کا اعلان کردیا گیا ہے۔ لیکن یہاں دو سے تین فیصد سے زائد کارکنان جمع نہیں ہو سکے۔ واضح رہے کہ عمران خان نے اپنے وکلا سے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔ جیسے بھی ممکن ہو عدالت سے عبوری ریلیف حاصل کریں۔ جس میں پوری طرح کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور آج صبح اس ضمن میں حتمی فیصلے کا امکان ہے۔
بدھ کے روز بینکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین کے روبرو فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں چیئرمین تحریک انصاف کی عبوری ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران عمران خان کی طرف سے ان کے وکلا نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔ جو عدالت نے مسترد کر دی ہے۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان 70 سال سے زائد عمر کے آدمی ہیں۔ وہ ورزش کی وجہ سے سپر فٹ ضرور ہیں۔ لیکن عدالت میں پیش ہونے کی حد تک نہیں۔ انہیں جو زخم آئے ہیں ان کے درست ہونے میں تین ہفتے لگیں گے۔ اگر کسی نوجوان کو بھی گولی لگے تو تین مہینے ریکوری میں لگتے ہیں۔ لیکن ہم صرف تین ہفتے مانگتے ہیں۔ تاکہ وہ سپورٹ کے بغیر کھڑے ہو سکیں۔ دوران سماعت عدالت کے اس استفسار پر کہ کیا عمران خان شامل تفتیش نہیں ہوئے؟
اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ابتدا میں تو شامل تفتیش ہوئے تھے۔ مگر بعد میں انہوں نے تعاون نہیں کیا۔ عدالت کے اس استفسار پر کہ آپ نے بینک سے مکمل ریکارڈ نہیں لیا؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ہماری اکاؤنٹس تک رسائی ہے۔ مگر یہ کہتے ہیں خود ریکارڈ دیں گے؟۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ عمران خان کو کوئی ایسا سنجیدہ مسئلہ نہیں۔ ٹانگ میں معمولی کھچائو اور سوزش ہے۔
عمران خان کی نجی میڈیکل رپورٹ استثنیٰ کے لیے کافی نہیں۔ عمر رسیدہ ہونے کا مؤقف بھی قانون کے لیے اجنبی ہے۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے عمران خان کی بدھ کے روز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کر دی۔ تاہم یہ رعایت دی گئی کہ سابق وزیر اعظم عدالتی اوقات یعنی ساڑھے 3 بجے تک پیش ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر عمران خان پیش نہیں ہوتے تو قانون اپنا راستہ بنائے گا۔
دوران سماعت ہی اسپیشل پراسیکیوٹر نے عمران خان سے متعلق میڈیکل بورڈ بنانے کی درخواست بھی پیش کی اور عدالت کی ہدایت پر اس کی نقل عمران خان کے وکلا کو فراہم کی گئی۔ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ تک پہنچنے پر عدالت نے، عمران خان کی ضمانت پر فیصلہ اٹھارہ فروری تک موخر کر دیا اور ہائی کورٹ کے حکم کی مصدقہ نقل جمع کرانے کا حکم دیا۔
دوسری جانب بینکنگ کورٹ سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج مسٹر جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کے روبرو بھی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے پی ٹی آئی چیئرمین کے چلنے پھرنے کے قابل نہ ہونے کا معاملہ اٹھایا اور بتایا کہ درخواست گزار طبی ناسازی کی وجہ سے عدالت پیش نہیں ہوسکے۔ ڈاکٹروں نے انہیں مزید تین ہفتوں تک آرام کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ، تو آپ ابھی تک شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئے؟ ہم نے ایف آئی اے کو اسکائپ کے ذریعے شامل تفتیش ہونے کا کہا۔ مگر ہماری بات نہیں مانی گئی۔ گزشتہ سال بائیس اکتوبر سے عمران خان ضمانت پر ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر فیصلہ ابھی نہ کریں؟ تو عدالت کو بتایا گیا کہ عمران خان عدالت میں پیش اور شامل تفتیش ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹروں نے سفر سے منع کر رکھا ہے۔ جبکہ اس وقت بھی وہ سہارے کے ذریعے چہل قدمی کرتے ہیں۔ ہم بیان حلفی جمع کراتے ہیں کہ ہم اٹھائیس فروری کو عدالت میں پیش ہوں گے۔
عمران خان کبھی عدالتوں کے روبرو پیش ہونے سے نہیں ہچکچائے۔ اب میڈیکل گراؤنڈز سب کے سامنے ہے اور حقائق پر مبنی ہیں۔ دلائل سننے کے بعد عدالت عالیہ نے بینکنگ کورٹ کو عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلے سے روک دیا اور عمران خان کی تازہ میڈیکل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
اسی دوران عمران خان کی آبائی رہائش گاہ زمان پارک میں کارکنوں کیلئے ہنگامی حالت کا اعلان تو کردیا گیا۔ لیکن معمول کے مطابق وہاں رہنے والے کارکنوں میں دو سے تین فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ کارکنان نے عمران خان کو کسی بھی قیمت پر گرفتاری سے بچانے کیلئے خود گرفتاری پیش کرنے کے نعرے لگائے۔
اس سے پہلے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بھی جب انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج جواد عباس حسن راجہ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کا احتجاج اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام میں تھانہ سنگجانی میں درج مقدمہ میں عدم پیشی پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی عبوری ضمانت خارج کردی تھی۔ جہاں عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے ضمانت کی درخواست پر ضمانت کے حق میں دلائل دینے کے بجائے موقف اختیار کیا کہ یہ کیس بنتا ہی نہیں۔ جس پر عدالت نے واضح کیا کہ اس وقت یہ ضمانت کی درخواست پر سماعت ہو رہی ہے۔
اس کیس میں بھی ضمانت خارج ہونے پر پی ٹی آئی کے سربراہ کی طرف سے ہنگامی بنیاد پر لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست کی گئی۔ جہاں عدالت نے بار بار وکلا کو ہدایت کی کہ درخواست گزار عمران خان کو ایمبولینس یا اسٹریچر پر عدالت میں لائے۔ لیکن عمران خان عدالت میں پیش نہ ہوئے اور مسٹر جسٹس طارق سلیم شیخ نے اس کیس کی سماعت آج جمعرات کی صبح تک ملتوی کردی۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے اسلام آباد کی ہائیکورٹ جیسا ہی موقف اختیار کیا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق عمران خان کا چلنا پھرنا مشکل ہے اور اس وقت حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی ہے۔ جبکہ وہ متعلقہ عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔ اس لئے میڈیکل گراؤنڈ پر حفاظتی ضمانت دے دیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ حفاظتی ضمانت کا قانون کیا ہے؟ جبکہ اس کا پہلا اصول ملزم کی پیشی ہے۔ میرے فیصلے موجود ہیں کہ ملک سے باہر ہونے پر بھی حفاظتی ضمانت ہو جاتی ہے۔ اگر زیادہ مسئلہ ہے تو ایمبولینس میں آجائیں۔ کیونکہ حفاظتی ضمانت میں ملزم کی پیشی ضروری ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ اصولی طور پر مجھے یہ درخواست خارج کر دینا چاہیے۔ لیکن میں رعایت دے رہا ہوں۔ اسٹریچر پر لائیں یا ایمبولینس میں۔ لیکن پیش کیے بغیر ضمانت نہیں ہو گی۔
عمران خان کے وکیل کی جانب سے ویڈیو لنک پر پیشی کی درخواست کی گئی۔ لیکن عدالت نے یہ استدعا رد کر دی اور کہا کہ جو طریقہ ہے اس پر عمل کریں۔ عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے کیلئے آٹھ بجے کا وقت دیا گیا۔ لیکن وہ آٹھ بجے بھی پیش نہ ہوئے اور پھر عدالت نے وکلا کو مشاورت کیلئے بھی پندرہ منٹ کا وقت دیا۔ لیکن اس وقت میں بھی عمران خان پیش نہ ہوئے اور وکلا نے عدالت سے دلائل کیلئے مہلت کی درخواست دی۔ جس پر عدالت نے درخواست پر فیصلہ جمعرات کی صبح تک موخر کردیا۔
اس سے پہلے عمران خان کے وکلا کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری نے بھی دلائل دینے کی کوشش کی۔ لیکن عدالت نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور واضح کیا کہ یونیفارم میں نہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ فواد چوہدری نے دیگر وکلا کے طبی بنیاد پر دلائل کے برعکس سیکورٹی کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ عمران خان کی سیکورٹی کا بھی معاملہ ہے۔ کیونکہ ان پر پہلے بھی حملہ ہوچکا ہے۔ باقی جو جج صاحب کا حکم ہوگا۔ وہ سر آنکھوں پر ہوگا۔ فواد چوہدری نے کہا کہ صبح دلائل کے لیے رکھ لیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ نہیں ہوگا۔ صبح پیش ہونے کی یقین دہانی ہو گی تو ملتوی کریں گے۔ اور عدالت نے کوئی عبوری ریلیف دیے بغیر سماعت آج صبح کیلیے ملتوی کردی۔