طاقتور حلقوں سے مطلوبہ جواب نہ ملنے پرعمران خان اچانک نرم پڑ گئے

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )طاقتور حلقوں کی جانب سے مطلوبہ جواب نہ ملنے پرعمران خان اچانک نرم پڑ گئے, اگرچہ انہوں نے اپنا دھمکی آمیز لہجہ برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے تاہم  سوشل میڈیا پر جاری کردہ تازہ بیان میں انہوں نے کہا ہے  کہ میں کسی سے بھی بات چیت کرنے کو تیار ہوں اور عدالت میں بھی پیش ہوں گا۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی سینئر رہنما یاسمین راشد کی مبینہ آڈیو لیک کی بنیاد پرمتعلقہ اداروں نے تحقیقات شروع کر دی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ زمان پارک کے اردگرد موجود بلوائی پولیس فورس پر پیٹرول بموں سے حملے کر رہے ہیں جبکہ دوسرے شہروں اور صوبوں سے آ کر ہنگامہ آرائی میں شامل ہونے والے مسلح جتھوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کے لیے بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود گرفتاری نہ دینے اور مسلسل تین روز تک ریاستی رٹ کو کھلے عام چیلنج کرنے کا مقصد جہاں سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسی کیفیت پیدا کر کے حکومت کو مشکل میں ڈالنا تھا وہاں معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا کر طاقتور ریاستی حلقوں کو مذاکرات پر مجبور کرنا بھی مقصود تھا، جہاں سے مسلسل کوششوں کے باوجود عمران خان کو کوئی رسپانس نہیں مل رہا۔ اس مقصد کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی شہرت رکھنے والے تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں جبکہ حالیہ ایپی سوڈ میں تحریک انصاف کے تازہ بہ تازہ صدر بننے والے گھاگ سیاست دان چوہدری پرویز الہٰی کرونا میں "مبتلا ” ہو کر کسی آزمائش سے کنارہ کش ہوگئے ہیں۔اسد عمر نے بھی اس ہنگامہ آرائی سے خود کو دور رکھا جس کی تصدیق یاسمین راشد کے آڈیو بیان سے بھی ہوتی ہے ، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے پرویز خٹک ایک آدھ بیان دینے تک محدود رہے جبکہ ہر معاملے میں پیش پیش رہنے والے فواد چوہدری بھی اس بار خاصے محتاط رہے۔ حال ہی میں جیل کی ہوا کھانے والے شیخ رشید نے تو مار دھاڑ پر مبنی اس فلم سے خود کو تقریبا” لاتعلق رکھا۔

ایسے میں اسٹبلشمنٹ سے رابطے کا واحد سہارا صدر مملکت عارف علوی رہ گئے تھے جنہیں بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی اورذرائع کے مطابق انہوں نے اس معاملے میں سرگرمی دکھائی بھی ، تاہم متعلقہ اداروں کے حکام کی جانب سے انہیں واضح جواب دیا گیا کہ وارنٹ گرفتاری عدالتی حکم ہے جس پر عملدرآمد حکومت اور انتظامیہ کا کام ہے۔ عدالتی معاملات اور انتظامی امور میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ اداروں کو ان تنازعات میں گھسیٹنے کے بجائے متعلقہ فورمز پر ہی بات کی جائے تو مناسب ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جواب پرتحریک انصاف کی قیادت اور زمان پارک کے درودیوار پر مایوسی کے سائے گہرے ہو گئے جس کے بعد عمران خان نے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی پیش کش کی۔ دوسری طرف حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ گزشتہ تین روز کے دوران پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر شرپسند عناصر کو شہ ملی اور حکومتی رٹ کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہوا تاہم اس کا بنیادی مقصد انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنا تھا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں اور بلوائیوں کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آئے گا۔ ذرائع کے مطابق حملوں میں ملوث پسند عناصر اور ان کے سرپرستوں کے خلاف شواہد جمع کیے جا رہے ہیں اور عنقریب انہیں قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔