پاکستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میںساتویں مردم و خانہ شماری کا عمل بیس فروری سے شروع ہوا اور 30 اپریل تک مردم شماری کے تمام مراحل مکمل ہوں گے۔پاکستان میں اب تک 1951، 1961، 1972، 1981، 1998 اور سنہ 2017 میں مردم شماری ہو چکی ہے۔سنہ 2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریبا پونے 21 کروڑ ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری کی جا رہی ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے ذریعے کی جاری مردم شماری کے حتمی نتائج جاری کرنے میں مزید 30 دن لگیں گے۔ شناختی کارڈ نی رکھنے والے افراد بھی اس مردم شماری میں شمار کئے جار ہے ہیں۔مردم شماری میں بارہ سوالات اور خانہ شماری کے سوالات کی تعداد 10 ہے۔ شمار کنندگان ہر پا شہری سے ان کے رہن سہن، عمر اور جنس کے علاوہ دیگر معلومات مثلا گھر میں کمروں کی تعداد، بنیادی سہولیات، رہائش پذیر لوگوں کی تعداد وغیرہ،دیگر معلومات تعلیم، ملازمت، مذہب اور معذوری کی تفصیلی معلومات جمع کی جا رہی ہیں۔
آزاد کشمیر میں مردم شماری کے حوالے سے چند اعتراضات کا معاملہ ان دنوں ایک موضوع بنا ہوا ہے۔آزاد کشمیر اسمبلی میں بھی یہ معاملہ پیش ہو ااورسوشل میڈیا پہ خصوصا اس حوالے سے ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔آزاد کشمیر میں سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ زبانوں کے خانے میں پہاڑی اور گوجری زبان کو بھی شامل کیا جائے۔مردم شماری میں14زبانوں کا اندراج شامل ہے اور اس کے علاوہ دیگر کے کالم میں دیگر زبان کا اندراج بھی کیا جا سکتا ہے۔ زبانوں کے کالم میں گلگت کی شینا ، بلتستان کی بلتی زبان اور کشمیری زبان بھی شامل ہے۔اصولی طور پر دیکھا جائے تو پہاڑی اور گوجری زبان پنجابی کے ہی مختلف لہجوں والی زبانوں میں شامل ہے تاہم اگر زبانوں کے خانے میںسرائیگی اور کوہستانی کو بھی شامل کیا گیا ہے تو زبانوںکے کالم میں پہاڑی اور گوجری کو شامل کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہونا چاہئے۔
آزاد کشمیر اسمبلی میں اعتراضات کے حوالے سے حکومت پاکستان سے رابطے کے لئے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی ہے اور وزیر اعظم پاکستان کے مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر الزمان قائرہ نے بھی میر پور میں وکلاء کی ایک تقریب میں خطاب کے دوران مردم شماری کے حوالے سے پائے جانے والے اعتراضات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ آزاد کشمیر کے بعض حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ مردم شماری میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اور مہاجرین مقیم پاکستان کی قومیت باشندہ ریاست جموں وکشمیر درج کی جائے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 24اکتوبر کوآزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تاہم1949میں آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر اور حکومت پاکستان کے درمیان طے پائے معاہدہ کراچی کے ذریعے آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کا درجہ ختم کرکے اس حکومت کو ایک مقامی انتظامی حکومت میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
دوسری طرف ہندوستان نے ڈوگرہ مہاراجہ کے ساتھ رائے شماری کی شرط کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق سابقہ ریاست جموں وکشمیر کو رائے شماری کے انعقاد تک متنازعہ ریاست کا درجہ دیاگیا اور ہندوستان کے کنٹرول والے علاقوں، لداخ، وادی کشمیر اور جموں کو ہندوستانی زیر انتظام اورآزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیر انتظام علاقے کے طورپر عالمی سطح پہ تسلیم کیا گیا۔ گلگت بلتستان کے عوام یہ مطالبہ کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ ان کا اندراج مردم شماری میں باشندہ ریاست جموں وکشمیر کے طور پر کیا جائے۔یوں ایک محدود حلقے کی طرف سے باشندہ ریاست کے طورپر اندراج کے مطالبے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا ریاستی باشندوں کے حق رائے شماری سے کوئی تعلق ہے۔
اب اس میں مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مردم شماری کے معاملے پہ ہندوستان اپنے نقطہ نظر سے مخالفانہ پروپیگنڈہ مہم چلائے ہوئے ہے اور یورپ میں رہنے والے ایوب مرزا کی طرح کے بعض افراد مردم شماری کے معاملے میں ہندوستانی عزائم کے مطابق پروپیگنڈہ مہم میں مصروف ہیں۔ریاستی باشندے کئی امور کے حوالے سے حکومت پاکستان سے کئی مطالبات رکھتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں ہے جو ہندوستانی ایماء پہ ہو یا ہندوستان کے عزائم کی موافقت میں ہو۔ جو کوئی بھی ایسی بات کرتا ہے جو ہندوستان کے موافقت میں اور ہندوستانی پروپیگنڈے کے مطابق ہو، ایسے افراد ،ایسے حلقوں کو کسی طور بھی متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام کی خیر خواہی کے طورپر نہیں دیکھا جاسکتا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس تمام معاملے میں آزاد کشمیر حکومت کی غفلت اور نااہلی نمایاں ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے ایسے امور جو حکومت پاکستان کے دائرہ کار میں ہیں، کے حوالے سے حکومت پاکستان سے کوموثر رابطہ رکھے۔ لیکن افسوسناک طور پر آزاد کشمیر حکومت مفاداتی امور میں محدود ہوتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو بری طرح نظر انداز کرتی چلی آ رہی ہے۔معاہدہ کراچی کی رو سے آزاد کشمیر کے خارجہ امور کو حکومت پاکستان کی ذمہ داری میں دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے خارجہ امور پاکستان کے خارجہ امور سے الگ طور پر اپنی منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ معاہدہ کراچی کی رو سے جو امور حکومت پاکستان کے سپرد کئے گئے، ان کے حوالے سے قریبی رابطہ رکھنا آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن آزاد کشمیر حکومت نے اپنی اس ذمہ داری پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی بلکہ خود کو ان امور سے بری الذمہ تصور کر رکھا ہے۔اس کی ایک مثال یہ بھی کہ معاہدہ کراچی کی رو سے کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر، مہاجرین مقیم پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام سے قریبی رابطہ رکھنا بھی آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ریاستی امور کے حوالے سے عائید دیگر ذمہ داریوں کی طرح آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں اپنی اس ذمہ داری کے حوالے سے بھی مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
آزاد کشمیر حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سرٹیفیکیٹ باشندہ ریاست جموں و کشمیر کے معاملے کو بہتر سے بہتر بنائے۔ یہ معاملہ نا صرف کشمیر کاز بلکہ آزاد کشمیرمیں رہنے والوں اور مہاجرین مقیم پاکستان کے اعداد و شمار مرتب کئے جانے کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے اور اس سے کئی دیگر فوائد بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ یوں آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرٹیفیکیٹ باشندہ ریاست جموں وکشمیر کے مینوئل نظام کو کمپیوٹرائیز کرنے پہ توجہ دے۔ مردم شماری کے حوالے سے بھی اگر آزاد کشمیر حکومت نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ادارہ شماریات پاکستان اور پاکستان کے دیگر وفاقی اداروں سے رابطہ قائم رکھتا ہوتا تو آج ایسی شکایات ہی موجود نہ ہوتیں جس طرح کہ پہاڑی اور گوجری زبان کو شامل کئے جانے کا مطالبہ سامنے آ یا ہے۔