سجاد عباسی
اگلی دو پہر کو ہماری ملاقات سینٹ پیٹرز برگ میں ہاؤس آف جرنلسٹس کے ذمہ داروں سے طے تھی، جس کا اہتمام اعزازی قونصل جنرل عبدالرؤف رند نے وہاں کی صحافتی یونین کی سربراہ لدمیلا دیمتری ایوانا کے تعاون سے کیا تھا۔ یہ شہر کے قلب میں واقع ایک خوبصورت اور پر وقار عمارت تھی جس کا داخلی دروازہ کسی اوسط درجے کے ریسٹورنٹ جیسا تھا، جس سے داخل ہوتے ہوئے ہمیں بقول شخصے، اک "کمینی” سی برتری کا احساس ہوا کہ کہیں تو ہم روسیوں پر بھاری ہیں۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قائم ہمارے پریس کلب کشادہ رقبے اور خوبصورت عمارتوں میں قائم ہیں۔ کراچی پریس کلب کی عمارت تو قدیم فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ جس کے درودیوار کو اصل حالت میں محفوظ رکھنے کیلئے حال ہی میں سندھ حکومت کے تعاون سے کئی کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔
عمارت میں نصب 100 برس پرانی لکڑی کی لفٹ
ہم یہی کچھ سوچتے ہوئے وفد کے ہمراہ ایک مقامی صحافی کی رہنمائی میں زینہ چڑھنے لگے مگر اوپر پہنچ کر ہماری یہ خوش فہمی دھری کی دھری رہ گئی کہ یہ عمارت بھی اندر سے داستانِ الف لیلہ کا کوئی باب لگ رہی تھی۔ بلکہ ہمیں تو لگا کہ یہ بھی پیٹر دی گریٹ کے گرمائی محل کا کوئی توسیعی منصوبہ ہے۔ محرابی چھت، اس پر کندہ دلکش نقش و نگار، دیوار پر بنے خوبصورت بیل بوٹے، آنکھوں کو خیرہ کرتے طلائی فانوس اور اس سب میں نفاست اور حسن تناسب کا ایسا بے مثال مظاہرہ کہ کوئی چیز طبیعت پر گراں نہ گزرے۔ مگر یہاں کے صحافی ماسکو والوں سے یوں مختلف تھے کہ وہ روسی کے سوا کوئی دوسری زبان بولنے پر آمادہ نہ تھے۔ یہاں کی لدمیلا دیمتری بھی ماسکو یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر لدمیلا نہ تھی جن کی شُستہ اردو آپ کی سماعتوں میں شہد انڈیل دے۔ البتہ یہاں سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی میں انگریزی پڑھانے والے نوجوان پروفیسر ویڈم (VADIM) ضرور موجود تھے۔ جنہوں نے مترجم کا فریضہ سنبھال رکھا تھا۔ ہم نے بعد ازاں ان سے اس قدر مختصر نام کا سبب پوچھا تو شگفتگی سے بولے آپ لوگ ابلاغیات کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا اسی زبان میں جواب دیتا ہوں۔ میں پورا روسی نام بتاؤں گا تو طوالت اور مشکل ہجوں کے سبب آپ اگلے دو منٹ میں بھول جائیں گے۔ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ فوری اور دیر پا ابلاغ کیلئے اتنا ہی بتایا جائے جو ہضم ہوسکتا ہو۔ اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا۔
مترجم کا فریضہ انجام دینے والے پروفیسر ویڈم کے ساتھ
بات سو فیصد درست تھی کہ اب تک ہم جتنے بھی روسیوں سے ملے تھے، ان کے نام کے ساتھ موجود لاحقوں کو ایک بار دہرانے کی ہمت بھی نہیں کرسکے کہ یہ سب کہیں اوپر سے گزر جاتے تھے۔ ہم نے دل میں سوچا کہ ہاؤس آف جرنلسٹس والوں نے مترجم کا انتخاب بڑا سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ کیونکہ عام طور پر ترجمہ کرنے والا آپ کی گفتگو کو اس کی اصل روح کے مطابق پیش نہیں کر پاتا مگر پروفیسر ویڈم نے اس معاملے میں اپنی اہلیت پوری طرح ثابت کی۔ رسمی سیشن سے پہلے وفد کو پورے فلور کا دورہ کرایا گیا اور عمارت کے مختلف حصے دکھانے کے ساتھ اس کی تاریخی اہمت بیان کی گئی۔
ہمیں بتایا گیا کہ یہ عمارت 19 ویں صدی کے آغاز میں ایک روسی تاجر نے تعمیر کی تھی جسے بعدازاں جرنیل کے عہدے کے ایک جنگی ہیرو نے خرید لیا جو ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کاروبار سے منسلک تھا۔ یوں یہ مختلف ہاتھوں سے ہوتی ہوئی 70 ء کے عشرے میں صحافتی یونین کو عطیہ کردی گئی۔ 2006 ء میں اس کی تزئین نو پر کام شروع کردیا گیا۔ خیال تھا کہ یہ کام تین برس میں مکمل ہوجائے گا، مگر یہ خیال خام ثابت ہوا اور عمارت کی مکمل تیاری میں کوئی 10 برس لگ گئے جس کے بعد 2016ء میں اسے صحافتی تنظیم کے حوالے کیا گیا۔ لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ اس کی تاریخی حیثیت برقرار رہے۔ دس برس تک ترئین نو کا کام جاری رہنے اور اب ’’نازنین ناز آفرین‘‘ کا روپ دھارنے والی اس عمارت کے بناؤ سنگھار پر کتنا خرچ آیا؟ یہ سوال فطری تھا۔ اس پر قدرے توقف کے بعد خاتون عہدیدار نے بتایا کہ ظاہر ہے کروڑوں روبل، تاہم درست فیگر وہ فی الحال بتانے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ رقم کس نے دی؟ ہمارے اگلے سوال پر ذرا زیادہ توقف کے بعد مسکراہٹ کے ساتھ بتایا گیا کہ ظاہر ہے پیوٹن حکومت نے۔ یہاں بھی ماسکو جیسی ہی صورت حال تھی۔ دراصل روسی حکومت کو میڈیا کے ساتھ کچھ زیادہ مسئلہ ہے نہیں، وہاں کا پرائیویٹ میڈیا بھی کم و بیش اسٹیٹ میڈیا جیسا کردار ادا کر رہا ہے۔ لہٰذا حکومت ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہے۔
صحافتی یونین کی سربراہ لدمیلا دیمتری ایوانا اور پریس کلب کی سینئر عہدیدار کے ساتھ
ماسکو میں انٹر فیکس نیوز ایجنسی کی عمارت کے دورے کے موقع پر مختلف کمروں کا "حسب نسب” بیان کرتے ہوئے ایک وسیع و عریض کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خاتون روانی میں یہ بھی بتا گئیں کہ یہاں صدر محترم کے سیکریٹری کبھی کبھار آکر بیٹھے ہیں، جن کے ساتھ پالیسی امور ڈسکس کئے جاتے ہیں۔ ریاست اور صحافت کے اس قدر ’’مضبوط‘‘ تعلق کے حوالے سے بعض صحافی کچھ گھٹن بھی محسوس کرتے ہیں، البتہ اس کا اظہار کرنے سے کتراتے ہیں۔ دراصل اس کا سبب بیرونی محاذپر جاری وہ چومکھی لڑائی ہے جو پیوٹن حکومت اور اس کے اداروں کو ہمہ وقت مصروف رکھتی ہے اور میڈیا کا محاذ اس لڑائی کا مرکزی کردار ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں۔
سینٹ پیٹرزبرگ کلچر اینڈ پیس سینٹر کی ڈائریکٹرماریہ ریدکینا (Maria Redkina) اور نامور پاکستانی صحافی فہد حسین کے ساتھ
ہاؤس آف جرنلسٹس کے عہدیداروں کے ساتھ رسمی اجلاس میں پاکستانی وفد کا خیر مقدم بہت پرجوش انداز میں کیا گیا اور دونوں ملکوں کے درمیان وفود کے تبادلے سمیت ایسے تمام امور پر معاملات آگے بڑھانے پر زور دیا گیا جہاں پاکستان اور روس کسی بھی لحاظ سے مل کر کام کر سکتے ہوں۔ اجلاس میں دونوں طرف کے صحافیوں نے انفرادی تعارف کے بعد پاک روس تعلقات کے فروغ کیلئے گراں قدر تجاویز دیں۔ یہ بات نوٹ کی گئی کہ سینٹ پیٹرزبرگ کے صحافی پیشہ ورانہ مہارت کے لحاظ کسی بھی طرح ماسکو کے صحافیوں سے کم نہیں۔ یہ تو ہمارا خیال تھا، ورنہ ان کے سامنے تقابل کی بات کی جاتی تو شاید وہ ماسکو والوں کو کسی کھاتے میں شمار نہ کرتے۔ ہم نے وہاں ایک روسی کو جب بتایا کہ ہم چار دن ماسکو میں رہ کر آئے ہیں اور اگلے تین دن سینٹ پیٹرزبرگ میں قیام کریں گے تو اس نے اپنی مسکراہٹ سے ناگواری کو چھپاتے ہوئے کہا کہ دیکھنے کی چیز تو سینٹ پیٹرزبرگ ہے، آپ لوگوں نے ماسکو میں چار دن ضائع کردئیے۔ ہمیں یاد آیا کہ روسی شہروں کا پاکستانی شہروں سے تقابل کرتے ہوئے ڈاکٹر لدمیلا نے بھی ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ کی روایتی چشمک کا ذکر کیا تھا اور اسے دلّی اور لکھنؤ کے حریفانہ تعلق سے تشبیہہ دی تھی، یعنی ماسکو کے لوگ دلّی والوں کی طرح قدرے گرم مزاج اور چٹورے ہوتے ہیں جبکہ سینٹ پیٹرزبرگ کے شہری نرم خو، مؤدب اور تہذیب و تمدّن کا خیال رکھنے والے ہیں جو لکھنؤ کا خاصا رہا ہے۔
سینٹ پیٹرز برگ میں اعزازی قونصل جنرل عبدالرؤف رند اور روسی صحافتی تنظیم کے عہدیداران اسٹیج پر بیٹھے ہیں
بعد ازاں غیر رسمی گفتگو اور ہائی ٹی کے دوران (جس میں عبدالرؤف رند نے پاکستانیوں کے لئے خاص طور پر حلال اشیاء کا اہتمام کیا تھا) ہماری ملاقات ماریہ ریدکینا (Maria Redkina) اور ان کی نائب ارینا ششکینا (Irina Shishkina) سے ہوئی جو سینٹ پیٹرزبرگ کے کلچر اینڈ پیس ایجوکیشن سینٹر میں بالترتیب ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے مناصب پر فائز ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا ادارہ پاک روس تعلقات کی بہتری کیلئے ثقافتی میدان میں جو کام کررہا ہے، پاکستانی میڈیا اسے اپنے عوام سے روشناس کرائے۔ جریدے پلس کے چیف ایڈیٹر فرمان میخائل سے مل کر اندازہ ہوا کہ روس میں مسلمان صحافی بھی اپنی محنت سے مقام حاصل کررہے ہیں اور ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اسپورٹس کے بزنس سے وابستہ پاکستانی آصف صدیقی سے ملاقات تو خاصی دلچسپ رہی جو سیالکوٹ سے کھیلوں کا سامان منگوا کر روس میں پاکستان کو متعارف کرا رہے ہیں۔ ان کا تفصیلی حوالہ گذشتہ اقساط میں آچکا ہے۔ آصف صدیقی روس میں پاکستانی باشندوں کے حوالے سے معلومات کا خزینہ ثابت ہوئے۔ (جاری ہے )