کراچی : ملیر میں ٹریکٹر ڈرائیور کی تشدد زدہ لاش برآمد

کراچی (اسٹا ف رپورٹر)ملیر عثمان باغ سے ٹریکٹر ڈرائیور کی رسیوں سے پاوں بندھی لاش ملی ،جسے گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ، مقتول پر مالک نے سولر پینل کی ڈکیتی کےالزام میں شک ظاہر کیا تھا ۔تفصیلات کے مطابق ملیر سٹی کے علاقے باون شاہ مزار کے قریب عثمان گوٹھ میں قائم عثمان باغ کے اندر جمعرات کی صبح سات ، ساڑھے سات بجے کے درمیان ایک شخص کی لاش کی اطلاع پر پولیس اورریسکیو عملہ موقع پر پہنچ گیا ، پولیس نے موقع معائنے کے بعد لاش کو جناح اسپتال منتقل کردیا ، ایس ایچ او ملیر سٹی عدنان بخاری نے بتایا کہ مقتول کی شناخت 60سالہ محمد علی ولد جمعہ خان کے نام سے ہوئی جو کہ شاہ لطیف ٹاون جام کنڈو گوٹھ کا رہائشی تھااور ملیر میمن گوٹھ میں کھیتوں پر ٹریکٹر چلاتا تھا ،انھوں نے بتا یا کہ مقتول کی بیٹی نے پولیس کو ابتدائی بیان میں بتایاکہ بدھ کی رات ابو کا فون آیا تھا وہ کہہ رہے کہ میں ملیر 15کے قریب کسی کام سے آیا ہوا ہوں اورصبح آونگا،ایس ایچ او کے مطابق مقتول کے اہلخانہ اور رشتے داروں نے ابتدائی بیان میں بتایاکہ ہماری دشمنیاں بھی چل رہی ہیں۔تدفین کے بعد مقدمہ درج کرائینگے، انھوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ملیر سٹی پولیس کو اس بات کی اطلاع نہیں اور نہ ہی مقتول کے اہلخانہ نے پولیس کو بتایا کہ مقتول ملیر میمن گوٹھ میں ایک ڈکیتی کے شبہ میں پولیس کی حراست میں رہے کر آیا ہے ، انھوں نے بتایاکہ پولیس ڈاکٹروں نے ابتدائی وجہ موت دم گھٹنے سے بتائی ہے شبہ ہے کہ ملزمان نے پاؤں باندھ کر اس کا گلہ دبا کر قتل کیاہوا اورلاش مذکورہ مقام پر پھینک دی۔

تاہم امت کی جانب سے جب ایس ایچ او ملیر میمن گوٹھ اکرام آرائیں سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ 29مارچ کو ملیر میمن گوٹھ میں ایک زمین پر پندرہ سے بیس لاکھ روپے مالیت کے سولر پینل کا مکمل پراجیکٹ نصب تھا جوکہ نامعلوم ملزمان اسلحے کے زور عملے کویرغمال بنا کر لوٹ کر فرار ہوگئے تھے اور عملے کو رسی سے باند ھ دیا تھا انھوں نے بتایا کہ واقعےکا مقدمہ مالک کی مدعیت میں درج کیا گیاتھا جس کی تفتیش شعبہ تفتیش کے افسران کررہے تھے۔

جاری تفتیش کے دوران زمین کے مالک نے اپنے ٹریکٹر ڈرائیور محمد علی پر شبہ ظاہر کیا گیا کہ اس سے بھی تفتیش کی جائے۔ تفتیشی عملے نے شک کی بنیاد پر محمد علی کو حراست میں لیکر تفتیش شروع کردی اس کے بعد یکم مئی کو مالک نے ہی تفتیشی پولیس کو بول کر محمد علی کو رہا کرادیا۔ رہائی کے تین روز محمد علی کی لاش ملیرسٹی علاقے میں ملی اس واقعے سے ملیر میمن گوٹھ پولیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملیر سٹی پولیس واقعے کی تفتیش کررہی ہے وہی بتاسکتے ہیں کہ محمد علی کے قتل میں کون ملوث ہوسکتے ہیں۔

امت کو مقتول کے بھتیجے نصیر نے بتایا کہ جس زمیندار نے میرے چچا کو رہائی دلوائی تھی وہ رہائی کے بعد ملیر میمن گوٹھ تھانے سے میرے چچا کو اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا دو روز تک وہ انکے پاس رہا اور اچانک بدھ کی رات چچا نے اپنی بیٹی کو فون کرکے کہا کہ میں شیدی گوٹھ سے گھر آرہا ہوں گھر میں کھانا وغیرہ ہے یا نہیں یا میں ہوٹل سے لیتا ہوا آؤں صرف اتنی بات ہوئی۔ جب چچا کافی دیر تک گھر نہیں پہنچے تو ان کے موبائل فون پر کال کی تو انکا نمبر مسلسل بند ملا اور صبح ہوگئی۔

صبح کے وقت ملیر سٹی تھانے سے فون آیا کہ محمد علی کی لاش ملی ہے جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو چچا کے پاوں بندھے ہوئے تھے ،جبکہ چچا کی جیب سے موبائل فون اور پیسے بھی ملے۔ انھوں نے بتایاکہ چچا کی تدفین بھینس کالونی قبرستان میں کردی گئی ہے ، مقتول کے اہلخانہ اور رشتے دار کے مشورے کے بعد مقدمہ درج کرایا جائے گا۔نصیر کے مطابق مقتول تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کا باپ تھا جبکہ چھوٹی بیٹی کا چند سال قبل انتقال ہوچکا ہے۔