اسلام آباد( سجاد عباسی) حکومت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو عدالتی احکامات کے بعد اب ایم پی او کے تحت گرفتارنہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے "امّت” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) محمد طارق عباسی کاکہنا تھا کہ حکومت کے پاس کافی آپشن موجود ہوتے ہیں، مگر بہتر یہی ہوتا ہے کہ جائز اور قانونی آپشن اختیار کیا جائے، بصورت دیگر ایسے اقدامات کالعدم قرار پاتے ہیں۔
اس سوال پر کہ القادر یونیورسٹی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس کتنی گنجائش موجود تھی کہ وہ ضمانت نہ دیتی یا گرفتاری کو درست قرار دے دیتی؟ جسٹس طارق عباسی نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کردیا تھا کہ گرفتاری کا طریقہ کار درست نہیں تھا۔عدالت عظمیٰ نے وارنٹ کے قانونی یا غیر قانونی ہونے سے متعلق فیصلہ نہیں دیا تھا۔
اس کے علاوہ عدالت نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ یہ فیصلہ القادر ٹرسٹ کے کیس پر نظر انداز نہیں ہوگا۔ایسی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ ضمانت کے لیے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کا کہہ سکتی تھی کیوںکہ نیب کے موجودہ قانون کے تحت ماتحت عدالت میں بھی ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔عام طور پر اعلی عدالتیں ایسا ہی کرتی ہیں تاہم اگر ہائی کورٹ نے کیس کو براہ راست ٹیک اپ کیا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔اس سوال پر کہ14 مئی کو الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم تازہ واقعات کے شور میں دب گیا ہے، اس پر پیش رفت کے امکانات کیا ہیں، جسٹس طارق عباسی کا کہنا تھا کہ مذکورہ حکم اپنی جگہ قائم ہے جس کی سماعت اب 15 مئی کو رکھی گئی ہے۔اس حوالے سے کسی بھی وقت پروسیڈنگ شروع ہو سکتی ہے۔