احمد خلیل جازم :
سپریم کورٹ کے سامنے دھرنے میں عوام کا سمندر امڈ آیا۔ اس دھرنے میں ملک بھر سے پی ڈیم ایم میں شامل جماعتوں خاص طور پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنان نے شرکت کی۔ سب سے بڑا قافلہ صوبہ خیبرپختون سے آیا۔ جس میں ڈیرہ اسماعیل خان، بٹ گرام، دیر، مالاکنڈ، وزیرستان، سابقہ فاٹا کے تمام اضلاع کے جے یو آئی کے کارکنان شامل تھے۔
اس کے بعد سندھ کے تیس اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں قافلے سپریم کورٹ کے باہر پہنچے۔ پنجاب کے شہروں فیصل آباد، سرگودھا، جہانیاں، حافظ آباد، میانوالی، خانیوال، بہاولپور، راولپنڈی اور دیگر کئی شہروں سے نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے قافلے اسلام آباد پہنچ گئے۔
قبل ازیں دھرنے کے حوالے سے جے یو آئی کی انتظامیہ سے رات گئے میٹنگز چلتی رہی کہ یہ دھرنا ڈی چوک میں دینا چاہیے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان نہ مانے اور قافلے سپریم کورٹ کے سامنے ہی جاکر ٹھہرے اور عدالت عظمیٰ کے مرکزی دروازے کے سامنے کنٹینر کھڑا کرکے اسٹیج بنایا گیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ان قافلوں کا انتظام اور انصرام دیکھنے کے قابل تھا۔ کسی قسم کا پُرتشدد احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس احتجاج کا سارا انتظام جے یو آئی کی انصار الاسلام فورس کے ہاتھ میں رہا۔
ملک بھر سے آئے قافلوں میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں اور بزرگوں کی تھی۔ جن کی ترتیب اس طرح رکھی گئی کہ ایک دو بڑی عمر کے کارکنان کو چند نوجوانوں پر امیر مقرر کیا گیا اور انہوں نے امیر کی ہی پیروی کی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی لوگ قافلوں میں شریک ہوئے۔ ان قافلوں میں پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں خاص طور پر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے کارکنان بھی شریک ہوئے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے شرکا دوپہر سے پیشتر چند ٹکڑیوں میں شریک ہوتے رہے۔ لیکن بعد میں کافی تعداد میں لیگی کارکنان نے شرکت کی۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے کارکنان بھی پارٹی جھنڈے اٹھائے ہوئے کافی تعداد میں دکھائی دیے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سہ پہر چار بجے مولانا فضل الرحمان، مریم نواز کے ہمراہ احتجاج میں شامل ہونے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ اسٹیج پر مولانا فضل الرحمان، مریم نواز شریف اور پرویز رشید، اے این پی کے میاں افتخارحسین، بی این پی کے محمود خان اچکزئی اور پیپلز پارٹی کے نیئر حسین بخاری اور دیگر پی ڈی ایم کے رہنما شامل تھے۔
’’امت‘‘ نے اس موقع پر احتجاج میں شامل شرکا سے بات چیت کی۔ جنہوں نے اپنے ساتھ کھانے کے لیے خشک میوہ جات، خاص طور پر چنے رکھے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آئین، قانون اور عدلیہ کی سربلندی کے لیے مولانا فضل الرحمان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آئے ہیں۔
نمائندہ امت نے جے یو آئی کے جس کارکن سے بھی بات کی۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ہم امیر جمعیت علمائے اسلام کے حکم پر یہاں آئے ہیں۔ وہ ایک دن کہتے ہیں تو ایک دن یہاں ٹھہریں گے۔ اور اگر وہ ایک سال کے لیے کہیں گے تو ہم یہاں پر ایک سال تک بھی ٹھہریں رہیں گے‘‘۔ اکثر کارکنان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ہم لوگ پُر امن ہیں اور ہم نے انتظامیہ کو یہ یقین دلایا ہے کہ یہاں لگے ہوئے ایک پھول کو بھی نہیں توڑا جائے گا‘‘۔
نمائندہ امت نے دیکھا کہ تمام کارکنان انتہائی نظم و نسق کے ساتھ کھڑے اپنے رہنمائوں کے خطاب سن رہے تھے۔ انصارالاسلام کے ہزاروں رضاکاروں نے سیکورٹی ڈیوٹی سنبھال رکھی تھی۔ جبکہ انتظام و انصران بھی ان کے پاس تھا۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر اور جے یو آئی سربراہ کی کال پر سپریم کورٹ کے سامنے ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد جمع تھے۔ لیکن کہیں کوئی ناخشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
دوسری جانب جس وقت عدالت کا وقت ختم ہوا، تو سپریم کورٹ کے احاطے سے سپریم کورٹ کا عملے کو متبادل عقبی راستے سے نکالا گیا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کے اسکواڈ میں شامل گاڑیوں میں سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے لیے مختص گاڑی ساتھ تو رہی۔ لیکن چیف جسٹس کسی اور گاڑی میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ یہ حفاظتی انتظام ان کی سیکورٹی پر مامور عملے نے انجام دیا۔ جب کہ دیگر ہم خیال ججز بھی مختلف عقبی راستوں سے گھروں کی جانب روانہ ہوئے‘‘۔