کراچی(اسٹاف رپورٹر)19 سالہ عائشہ کی موت کا سودا 10 لاکھ روپے میں کردیا گیا،کیس کا فیصلہ اورانسانیت کا قتل 10 لاکھ روپے میں کلیئرکروادیا گیا،مقدمہ قتل کی جگہ حادثہ بنانے سے محکمہ پولیس پرسوال اٹھ گیا،ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا کی جانب سے موقف دیا گیا تھا کہ اگرفیملی کا کوئی ممبر نا آیا تو سرکارکی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جائیگا اورقاتلوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائیگی اچانک یہ کہانی کا رخ کس طرح تبدیل ہوگیا۔
ڈیفنس کی حدود میں قتل ہونے والی 19 سالہ عائشہ انسان نہیں تھی آخراسکا خون ایک حادثہ ظاہرکرکے طاقتور نے اپنا اثردکھا دیا،اسپتال میں لاش کو چھوڑ کرفرارہونے والے کون تھے،جسکی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظرعام پرآئی تھی یہ جمن کون تھا جو لڑکیاں لیکرگیسٹ ہاؤس پہنچا،ندیم کون تھا رینٹ اے کارسے کاررینٹ پر اٹھانے والا علی کون تھا اوراس کارکی گارنٹی دینے والا کون تھا کیا ان سوالات کے جوابات انصاف دلوانے کے مؤقف کا لولی پاپ دینے والے پی ایس پی افسردینگے۔
19 سالہ عائشہ کیساتھ تو چلو مان لیتے ہے حادثہ ہے،گیسٹ ہاؤس کے مالکان نے ساس کو بلواکرویڈیو بیان کیوں کروایا اورفرارکیوں ہوئے،سوال تو بنتا ہے،جس گیسٹ ہاؤس میں عائشہ موجود تھی اس گیسٹ ہاؤس مالکان سے تفتیش کیوں نہیں کی گئی،ایس ایچ او ڈیفنس تین لاکھ کی دکانداری میں خوش ہوگئے باقی محکمے پرسوال کھڑا ہوتا ہے تو ہوجائے کوئی فکرنہیں بس پیسہ آنا چاہیئے۔