مولانا فضل الرحمن دونوں رہنماؤں سے الگ الگ مشاورت اور مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، فائل فوٹو
 مولانا فضل الرحمن دونوں رہنماؤں سے الگ الگ مشاورت اور مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، فائل فوٹو

مولانا فضل الرحمن کو دبئی مذاکرات سے باہر رکھا گیا

نواز طاہر:
پی ڈی ایم کی سربراہی کرنے والی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو دبئی میں ہونے والے مذاکرات میں نہیں بلایا گیا۔ اس ضمن میں نہ تو جے یو آئی کے ترجمان اور نہ ہی مرکزی قیادت کی جانب سے لب کشائی کی گئی ہے۔ اس پُر اسرار خاموشی نے کئی سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں جے یو آئی کے رہنما سے بھی استفسار کیا جاتا ہے وہ ’’لاعلمی‘‘ کا اظہار کرتا ہے، لیکن اسی دوران اطلاعات ہیں کہ مولانا فضل الرحمان پوری طرح سے دونوں رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کے قائد آصف عل زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے دبئی میں اہم مذاکرات ہوئے ہیں، جنہیں پی ڈی ایم کے مذاکرات قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اس میں حکمران اتحاد کی جماعت جے یو آئی کی نمائندگی نہیں تھی اور اس پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔

ان قیاس آرائیوں پر جب ’’امت‘‘ نے جے یو آئی کے رہنماؤں سے رابطہ کیا تو کسی مرکزی رہنما نے گفتگو نہیں کی اور جن رہنماؤں نے مختصر بات چیت کی انہوں نے بھی لاعلمی ہی کا اظہار کیا۔ جبکہ حکمران اتحاد میں شامل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ ان مذاکرات میں جے یو آئی کو شامل نہ کرنے کے محرکات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی تو پی ڈی ایم کا حصہ نہیں۔ پی ڈی ایم کا حصہ تو مسلم لیگ (ن) ہے۔ یہ بات تو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف ہی بتاسکتے ہیں کہ جے یو آئی شامل کیوں نہیں تھی۔

عوامی نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر امیر بہادر خان ہوتی کا کہنا ہے کہ اس پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جے یو آئی کو ان مذاکرات میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ تاہم جس طرح حکومتی معاملات چلائے جارہے ہیں اور حکمران اتحاد کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ہے اس امر کا امکان ہے کہ جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان نے خود مینڈیٹ دیا ہو کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف مذاکرات کرلیں اور پھر انہیں بھی آگاہ کریں۔ تاہم ہمارا اس کے علاوہ دوسرا خیال یہ ہے کہ دبئی مذاکرات پی ڈی ایم جماعتوں کے نہیں تھے بلکہ یہ مذاکرات بنیادی طور پر مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کے تھے۔

ان کے مطابق اگر پی ڈی ایم کے مذاکرات ہوتے تو پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں بھی شامل ہوتیں جن میں سے کوئی بھی دکھائی نہیں دی اور نہ ہی کسی جماعت کی طرف سے ان مذاکرات کے حوالے سے کوئی بات کی گئی ہے، میں نے بھی پی ڈی ایم کے کسی رہنما سے نہیں سنا کہ پی دی ایم کے کوئی مذاکرات ہو رہے ہیں، صرف میڈیا پر ہی خبریں چلی ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام خیبر پختون اسمبلی کے سابق رکن اور جے یو آئی کے رہنما انور حیات خان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں نہ تو ہمیں کچھ علم ہے اور نہ ہی اس ضمن میں ہماری اپنی قیادت سے کوئی بات ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعت جمعیت علمائے پاکستان کے قائد پیر اعجاز حسین ہاشمی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دبئی میں پی ڈی ایم کی کوئی میٹنگ یا مذاکرات اور ان کا ایجنڈنا میرے علم میں نہیں۔

اسی دوران ذرائع کا کہنا ہے کہ دبئی میں ہونے والے مذاکرات میں تمام جماعتوں کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کا اجلاس یا مذاکرات تھے، بلکہ حکمران اتحاد کی سرکردہ قیادت ہی کی میٹنگ تھی جس میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان براہِ راست شامل نہیں ہوئے بلکہ وہ مشاورتی عمل میں شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان مذاکرات سے پہلے میاں نواز شریف اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی طویل مشاورت اور گفتگو ہوچکی تھی۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری اور جے یو آئی کے قائد کی بھی مشاورت ہوچکی تھی۔ دبئی میں ہونے والے مذاکرات میں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے کچھ امور طے کرنا تھے اور مولانا فضل الرحمن ان مذاکرات میں فی الحال شریک نہیں ہونا چاہتے تھے، بلکہ وہ دونوں رہنماؤں سے بعد میں تفصیلی مشاورت کرنا چاپتے ہیں۔ لیکن اس دوران بھی مولانا فضل الرحمن اور میاں نوازشریف رابطے میں رہے۔

ان ذرائع کے مطابق ابھی تینوں رہنماؤں کی پھر سے مشاورت ہونا باقی ہے جس میں اگلے چند روز میں نگران سیٹ اپ سمیت دیگر امور پر پر بھی مشاورت ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور آصف علی ذرداری کی یہ ملاقات الیکشن ’’ٹیسٹر‘‘ میٹنگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس میٹنگ کا باضاطبہ حصہ نہیں بنے۔ وہ ان دونوں قائدین سے جماعت کی بنیاد پر الگ الگ ڈیل کیلیے الگ الگ ملاقات کریںگے۔