اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عام انتخابات سے متعلق میں الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیں،درخواست گزار نے کہاکہ جی بالکل الیکشن کمیشن کو نوٹس کر دیں، عدالت نے کیس کی سماعت 2نومبر تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات سے متعلق درخواستوں میں کئی مختلف استدعا کی گئیں،درخواستوں کو صدر پاکستان کو بذریعہ سیکرٹری فریق بنایا گیا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عام طور پر صدر مملکت صدارتی ریفرنس بھیجتے رہتے ہیں،صدر مملکت کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے۔
حکمنامے میں مزید کہا گیاہے کہ درخواستگزاروں کے مطابق الیکشن کمیشن نے مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں شروع کردیں،عدالت کو بتایا گیاکہ حلقہ بندیوں کا کام 14دسمبر تک مکمل ہوگا، درخواست گزار مردم شماری ، اس کی منظوری، حلقہ بندیوں کے عمل سے مطمئن نہیں،درخواستگزارکا کہنا ہے کہ یہ سارا عمل انتخابات کا تاخیر کا بہانہ ہے،درخواستگزاروں نے کہا کہ الیکشن 90دن میں کرانا آئینی تقاضا ہے،درخواست گزاروں کے مطابق حلقہ بندیوں ، مردم شماری سے 90دن میں الیکشن ممکن نہیں۔
سپریم کورٹ میں 90روز میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ درخواست گزار منیر احمد نے بھی جلد سماعت کی درخواست نہیں دی،میڈیا پر انتخابات کیس پر لمبی لمبی بحث ہوتی ہے،ہم کیس لگائیں تو الزام، کیس نہ لگائیں تو بھی ہم پر الزام۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ یہ ایسا مقدمہ ہے جو ہر صورت لگنا چاہئے تھا،آج وکلا کے پاس مقدمے کی فائل ہی نہیں،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ فیصلے کے بعد ہم نے اہم مقدمات لگانا شروع کر دیے،میڈیا پر لمبی لمبی تقریریں اور کمرہ عدالت میں وکیل کے پاس کچھ نہیں ہوتا،ہم نے تاخیر کرنا ہوتی تو فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کا نیا بنچ بنا دیتے،میڈیا پر ہم پر انگلی اٹھائے، اگر ہم غلطی پر ہیں، کیس عدالت میں چلانا ہے یا ٹی وی چلانا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اپنا مقدمہ صرف 90دن میں انتخابات پر رکھیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ 90دن والی بات ممکن نہیں وہ بات بتائیں جو ممکن ہو،آپ کا سارا مقدمہ ہی صدر مملکت کے اختیارات کا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ تاریخ صدر مملکت کااختیار ہے تو پھر تاخیر کا ذمہ دارکون ہے،آئینی کام میں تاخیر کےنتائج ہونگے،انور منصور نے کہاکہ صدر مملکت کے خط کے بعد تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت نے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی؟آپ ایک وقت میں دو مختلف دلائل نہیں دے سکتے،آرٹیکل 48پر انحصار کریں یا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57پر؟جس دستاویز کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس میں صدر مملکت خود رائے مانگ رہے ہیں،کیا سپریم کورٹ ایک ٹوئٹ پر فیصلے دے؟ ٹوئٹس میں صدر مملکت آئینی اختیارات کی بات نہیں کررہے ،آپ ایسے صدر مملکت کے اٹارنی جنرل بھی رہ چکے ہیں،بہت اخلاق والے صدر ہیں آپ فون بھی کرتے تو آپ کو بتا دیتے۔