کراچی (امت خاص ) فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھی گئی تاریخی ناانصافی اور اس پر پیدا ہونے والا غصہ ایک بار پھر دھماکہ خیز انداز میں سامنے آیا ہےجس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کو لپیٹ میں لے لیا ہےبلکہ دنیا بھر کی توجہ چاہتا ہے۔چینی سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن انٹرنیشنل ریلیشنز کے محقق پروفیسر ڈاکٹرمارٹن جیکوئس نے اپنے کالم میں بتایا ہے کہ اس تنازع کی وجوہات کو صرف حماس کے حملے تک محدود کرنے سے معاملے کی حقیقت نظروں سے اوجھل ہو جائے گی۔مسئلہ فلسطین اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک فلسطینی ریاست کے بنیادی مسئلے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اس مسئلے کی جڑیں 1948ء کی جنگ اور فلسطینیوں کو ان کے ملک سے بیدخل کرنے میں پنہاں ہیں۔
اس تاریخی ناانصافی کے 75سال تک برقرار رہنے کی دو وجوہات ہیں۔پہلی یہ کہ اسرائیل نے دو ریاستی حل کو قبول کرنے سے انکار کیا۔وہ صرف یہودی ریاست پر یقین رکھتا ہے ، کسی فلسطینی ریاست کو نہیں مانتا۔اس نے 67ء کی جنگ کے بعد توسیع پسندی کی پالیسی اپنائی اور مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کو اپنے قیام کے بعد سے ہی امریکہ کی غیرمشروط حمایت حاصل رہی ہے۔ اسرائیل امریکہ کی جانب سے معاشی، سیاسی اور فوجی امداد کے بل بوتے پر زندہ ہے۔
اسرائیل مغربی تخلیق ہے اور مغرب پر ہی انحصار کرتا ہے۔ اور یہی اس کی تاریخی کمزوری کی وجہ بھی ہے۔کیا ہو گا اگر امریکہ پہلے کی طرح اسرائیل کی مدد کرنے کے قابل نہیں رہتا۔عالمی لیڈرہونے کے زعم میں مبتلاامریکہ ایک اہم بین الاقوامی معاملے میں تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں اب ویسا اثرورسوخ حاصل نہیں ہے جو صرف ایک دہائی قبل تھا، اس سے پہلے کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ اس اثرورسوخ کا زوال جاری رہے گا۔اب جبکہ امریکہ پر کمزوری کے آثار نظر آ رہے ہیں تو اسرئیل کو اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ ہم آہنگی کیساتھ رہنا سیکھ لینا چاہئے جومسئلہ فلسطین کے حل کیلئے بھی ضروری ہے، لیکن اسرائیل مخالف سمت میں آگے بڑھنے پر تلا ہوا ہے۔اسرائیلی کہتا ہے اس کا مقصد حماس کی تباہی ہے۔ایسا نہیں ہوگا۔اس کے برعکس غزہ پر تباہ کن بمباری زیادہ آبادی کو باغی کر دے گی اور مستقبل میں حماس کومضبوط کرنےمیں مددگار ثابت ہوگی۔اسرائیلی حکومت اس مغالطے کا شکار ہے کہ حماس ایک جابرانہ قوت ہے جسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔یہ بالکل غلط ہےجیسا کہ رائے عامہ کے جائزوں سے ثابت ہو چکا ہے۔
شمالی آئرلینڈ میں آئرش ریپبلک آرمی، ویتنام میں ویت کونگ، کینیا میں ماؤ ماؤ اور افغانستان میں طالبان، یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ پسے ہوئے، بے گھر اور سیاسی طاقت سے محروم لوگ قابض طاقت کے خلاف جو کچھ بن پڑتا ہے کرتے ہیں۔جلد یا بدیر، اسرائیلی حکومت کو فلسطین کے معاملے پر حماس اور فلسطینی اتھارٹی سے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔غزہ کی جنگ یوکرینی جنگ کی طرح، عالمی نظام میں پیدا ہونے والے عدم استحکام کی یاد دہانی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں تاہم سب سے اہم عنصر امریکہ کا زوال اور اس کے نتیجے میں عالمی نظام کا انتشار کا شکار ہونا ہے۔صورتحال بلاشبہ مزید خراب ہوگی۔ ایسے میں تلخی کے بجائے ٹھنڈے دماغ اور اشتعال کے بجائے تحمل کی ضرورت ہے۔چین اس بات سے بخوبی آگاہ ہے اور یہی چیز2023میں اس کی سفارت کاری کی نمایاں خصوصیت رہی ہے اور اس دوران وہ تیزی سے ایک اہم عالمی رہنما کے طور پر سامنے آیا ہے۔چین حساس ترین مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آگاہ ہے اور امن عمل میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔