فائل فوٹو
فائل فوٹو

8 فروری کو انتخابات کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش

اسلام آباد: عام انتخابات سے متعلق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی دستخط شدہ دستاویز سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی، صدر ہاوس کے گریڈ 22 کے افسر کے دستخطوں سے جواب جمع کروایا گیا۔

صدر مملکت کی جانب سے 8فروری کو انتخابات کی تاریخ دینے پر رضامندی ظاہر کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے8 فروری کو انتخابات کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کیا جبکہ اٹارنی جنرل نے انتخابات سے متعلق نوٹیفکیشن کی کاپی سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔

عدالت نے حکمنامے کے ساتھ انتخابات سے متعلق تمام درخواستیں نمٹا تے ہوئے اپنے حکمنامے میں لکھا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صدر اور الیکشن کمیشن کے مابین اختلاف ہوا، چاروں صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز نے حکمنامے پر کوئی اعتراض نہیں کیا، وکیل پی ٹی آئی نے صدر کا الیکشن کمیشن کو لکھا گیا خط بھی دکھا دیا۔ خط میں صدر نے کمیشن کو سیاسی جماعتوں اور صوبوں سے مشاورت جبکہ عدلیہ سے بھی رہنمائی لینے کا کہا۔ صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

عدالت نے اپنے حکمنامے میں لکھا کہ سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں، صدر مملکت اعلیٰ عہدہ ہے، حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے، صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے، ہر آئینی آفس رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں، آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں، آئین پر علمداری اختیاری نہیں، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا، سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر پورا ملک تشویش کا شکار ہوا۔

سپریم کورٹ نے حکمنامے میں لکھا کہ انتحابات کی تاریح نہ دینے سے پورا ملک بے چینی کا شکار ہوا، جس کے پاس جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اسکی ذمہ داری بھی اتنی بڑی ہوتی ہے۔ آئین میں صدر اور الیکشن کمیشن ممبران کے حلف کا ذکر موجود ہے۔ انتخابات کے لیے سازگار ماحول ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور یہ ذمہ داری اْن پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے یہ حلف اْٹھا رکھا ہے۔ صدر مملکت یا الیکشن کمیشن دونوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر، ممبران اور صدر مملکت حلف لیتے ہیں، عوام کو صدر مملکت یا الیکشن کمیشن آئین کی عملداری سے دور نہیں رکھ سکتے۔

عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ حادثاتی طور پر پاکستان کی تاریخ میں پندرہ سال آئینی عملداری کا سوال آیا لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ صرف آئین پر عمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کو دیکھیں، آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا، اس وقت کے وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا۔ سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ پی ٹی آئی دور میں قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ غیر آئینی تھا، اسمبلی تحلیل کیس میں ایک جج نے کہا کہ صدر مملکت پر پارلیمنٹ آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرے، عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال کیا جو ان کا نہیں تھا، وہ اختیار استعمال نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا، عوام پاکستان حقدار ہیں کہ ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں۔

صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان ملاقات کرانے کے لیے اٹارنی جنرل نے کردار ادا کیا اور معاملہ حل ہوگیا۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے پورے ملک میں ایک ساتھ عام انتخابات کے لیے تاریخ دے دی، الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن شیڈول جاری کرے گا۔ انتخابات انشااللہ 8 فروری کو ہوں گے، تمام لاء افسران نے انتخابی تاریخ پر کوئی اعتراض نہیں کیا، توقع ہے کہ تمام تیاریاں مکمل کرکے الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرے گا۔

سماعت کے اختتام پر، جسٹس اطہر من اللہ نے ریماکس دیے سپریم کورٹ کو پتہ ہے ہم نے کیسے عمل درآمد کروانا ہے جبکہ چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ اگر کسی سے فیصلے نہیں ہو پا رہے تو وہ گھر چلا جائے، اگر میڈیا نے شکوک شبہات پیدا کیے تو وہ بھی آئینی خلاف ورزی کریں گے، آزاد میڈیا ہے ہم ان کو بھی دیکھ لیں گے۔