اسلام آباد(اُمت نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے اختیارات سے متعلق بڑا فیصلہ جاری کرتے ہوئے چیف کمشنر اسلام آباد کا تھری ایم پی او کا نوٹی فکیشن آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی تھری ایم پی او کے خلاف درخواست پر 89 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، جس میں 10 نکات پر مشتمل ڈیکلریشن اور ڈائریکشنز شامل ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ خصوصی اختیارات کے استعمال کیلئے کابینہ کی منظوری درکار ہوگی۔
فیصلے کے مطابق چیف کمشنر اسلام آباد کا نوٹی فکیشن آئین کے متصادم ہے، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے صوبائی اختیارات کا 1992 کا نوٹیفکیشن بھی خلاف قانون ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت کو اسلام آباد کی حد تک وفاق اور صوبے کے قوانین لاگو کرنے کیلئے خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت صوبائی اختیارات کے استعمال سے متعلق رولز تین ماہ میں تشکیل دے۔
فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت ہی اسلام آباد کی حد تک صوبائی حکومت بھی ہے چیف کمشنر نہیں۔
فیصلے کے مطابق عدالتی حکم کا اطلاق انتظامیہ کے ماضی، موجود اور ہونے والے فیصلوں پر بھی ہوگا۔
عدالت نے شاندانہ گلزار اور شہریار آفریدی کے خلاف جاری ایم پی او آرڈرز کالعدم قرار دے دیے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جب 26 ایم پی او کے اختیارات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو دیے گئے تب یہ اختیارات محدود تھے، کسی کو حفاظتی حراست میں لئے جانے کا فیصلے کا اختیار صوبائی حکومت کا ہے ، اختیارات کا استعمال صرف حکومت کرسکتی تھی کسی فرد کو تفویض نہیں کئے جاسکتے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ایم پی او کا آرٹیکل تھری (2) آئین کے آرٹیکل 10(4) سے متصادم ہے، کسی بھی شخص کو صرف اس بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ یہ عمل کرسکتا ہے، گرفتاری کا اطلاق تب ہوتا ہے جب کوئی عمل کررہا ہو یا کرچکا ہو، کسی کی حراست کے آرڈرزجاری کرنے کیلئے ٹھوس شواہد کا موجود ہونا بھی ضروری ہے۔