کراچی: جامعہ این ای ڈی کے تھر انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیرِ اہتمام آرٹیفشل انٹیلیجنس کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی صدارت شیخ الجامعہ این ای ڈی پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی نے کی۔ سی ای او shispare ارسلان احمد اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر گلاسگو یونی ورسٹی قمر عباسی، میٹا ٹیلنٹ کے ایگزیکٹوز ریحان، قذافی اور ڈاکٹر ایرج نے کی نوٹ اسپیکر کی حیثیت سے شرکت کی۔ جامعہ کی ترجمان کے مطابق کانفرنس کا مقصد تھر پارکر میں کمپیوٹنگ سسٹم اور اپلیکیشنز کا فروغ ہے۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوۓ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی اور
چیئرمین آئی ای پی
سہیل بشیر کا کہنا تھاکہ مصنوعی ذہانت کا مطلب ہے خود کار ہونا،جو دراصل مشینوں کو یہ صلاحیت بخشتا ہے کہ وہ خود سے انسانوں کی طرح سوچ، سمجھ سکیں اور پھر فیصلے کر سکیں۔ یہ نئی ٹیکنالوجی بہت ہی حیرت انگیز ہے اور انجینئرنگ سمیت کئی شعبوں میں انقلاب لاسکتی ہے۔ شیخ الجامعہ نے کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر تھر انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل ڈاکٹر ناصر الدین شیخ، این ای ڈی کے ڈین ڈاکٹر سعد قاضی، چیئرمین شعبہ کمپیوٹر(تھر) ڈاکٹر عباس علی، ڈاکٹر ماجدہ کاظمی اور ڈپٹی رجسٹرار مخدوم خالد ہاشمی سمیت تمام ٹیم کو سراہا۔ اس موقعےپر کی نوٹ اسپیکرز کا کہنا تھاکہ پاکستان بھر کے لیے نئی اور اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز تک منصفانہ، غیر مشروط اور مساوی رسائی کی بھرپور حمایت ضروری ہے۔ انہوں نے نوجوان طالب علموں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اے آئی کی مدد سے ہم انسان کے ذہن کی صلاحیت کو بھی پَر لگا سکتے ہیں۔
اس موقعے پر پروفیسر ڈاکٹر سعد قاضی، ڈاکٹر شہنیلہ زرداری، ڈاکٹر نسیم، ڈاکٹر جواد شمسی، ڈاکٹر علی اسماعیل، ڈاکٹر ثمن حنا، ڈاکٹر نجید احمد، انجینئر فاروق عربی، انجینئر ایاز مرزا، ڈاکٹر احسان احمد، ڈاکٹر شارق محمود، ڈاکٹر مبشر خان، اور ڈاکٹر ماجدہ کاظمی نے زُور دیاکہ پاکستان کے نوجوانوں میں مصنوعی ذہانت پر کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور یہ ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کو تیز کرنے میں مددگار بھی ثابت ہوگی لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانونی فریم ورک کی کمی ہے۔ پالیسی سازوں کو اس مسئلے کو ابتدائی مرحلے میں ہی حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے مثبت استعمال کو بروئے کار لایا جاسکے۔
اختتامی کلمات ادا کرتے ہوۓ پرووائس چانسلر سندھ یونی ورسٹی لاڑ کیمپس بدین ڈاکٹر خلیل کمباٹی، پرنسپل تھر انسٹی ٹیوٹ ناصر الدین شیخ اور چیئرمین شعبہ کمپیوٹر انجینئرنگ ڈاکٹر عباس علی نے کہا کہ اے آئی جیسی اہم ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ شعبوں میں استعمال کر کے زندگی کو سہل بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے شعبہ وار استعمال اور ترقی کے لیے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اعلیٰ مہارت رکھنا بنیادی مرحلہ ہے۔ اے آئی بہت بڑے ڈیٹا کو بھی بآسانی سموسکتی ہے، جب کہ نئے ٹرینڈز کی نشان دہی کرتے ہوئے مناسب تجاویز دے سکتی ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر ماہرین کو تھر انسٹی ٹیوٹ کی 340 ایکڑ اراضی کا دورہ بھی کروایا گیا جہاں شعبہ سول اور میکینکل انجینئرنگ کی عمارات تیزی سے تکمیل کے آخری میں ہیں۔