بائیڈن انتظامیہ نے ایپ کو دبانے کے لیے ’’قومی سلامی کو خطرے‘‘ سے جوڑ دیا، فائل فوٹو
بائیڈن انتظامیہ نے ایپ کو دبانے کے لیے ’’قومی سلامی کو خطرے‘‘ سے جوڑ دیا، فائل فوٹو

 سوشل ایپ پرسُپر پاورز میں جنگ شروع 

میگزین رپورٹ :

امریکی ایوان نمائندگان نے چین کی معروف ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر پابندی کا بل منظور کر لیا ہے۔ جس سے دونوں سُپر پاورز ایک بار پھر آمنے سامنے آگئی ہیں۔ چین نے امریکا کو ٹک ٹاک پر پابندی لگانے پر وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایپ سے امریکا کی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ میں قانون سازوں نے ایک ایسے بل کی منظوری دی ہے۔ جس سے ملک میں ٹک ٹاک پر پابندی لگ سکتی ہے۔ ایوان نمائندگان میں پیش کیا گیا یہ بل چین کی ملکیتی ایپ ٹک ٹاک کو مجبور کرے گا کہ یا تو وہ چین کے ساتھ تعلقات منقطع کرلے یا امریکہ میں اسے بند کر دیا جائے۔

سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایوان نمائندگان میں مذکورہ بل 65 کے مقابلے میں 352 ارکان کی بھاری اکثریت سے منظور ہوا۔ بل کو امریکی شہریوں کو تحفظ دینے کیلئے فارن ایڈورسری کنٹرولڈ اپیلیکیشن ایکٹ کا نام دیا گیا ہے اور اس بل کو ایوان کے رکن مائیک گیلگھیر، آر ویس اور راجا کرشنا مورتھی نے 5 مارچ کو چینی کمیونسٹ پارٹی پر ایوان کی سلیکٹ کمیٹی میں پیش کیا تھا اور دو روز بعد توانائی اور تجارت کمیٹی نے متفقہ طور پر بل منظور کرلیا۔

امریکی حکام قومی سلامتی کے ممکنہ خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے طویل عرصے سے ٹک ٹاک کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ تاہم ٹک ٹاک مالکان نے بار بار اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ بدھ کے روز اس بل کو ایوان میں اپوزیشن اور حکومتی دنوں بینچوں کی دو طرفہ حمایت کے ساتھ منظورکر لیا گیا۔ اس بل کا مقصد ’امریکیوں کو غیر ملکی کنٹرول والی ایپلی کیشنز سے تحفظ دینا‘ بتایا جا رہا ہے اور اب اسے سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔ جہاں اس کی منظوری کے امکانات تاحال واضح نہیں۔ لیکن اگر یہ سینیٹ سے بھی منظور ہو جاتا ہے تو وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر جوبائیڈن اس پر دستخط کریں گے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا ہے کہ امریکہ کو اس ایپ سے قومی سلامتی کے خطرات کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور انہوں نے امریکہ پر ٹک ٹاک کو دبانے کا الزام لگایا۔ وانگ وین بن نے مزید کہا کہ ایسے ہتھکنڈوں سے منصافہ مقابلوں میں نہیں جیتا جا سکتا اور یہ کہ ان سے کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیوں میں خلل پڑتا ہے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ امریکہ کے گلے پڑے گا۔ چینی میڈیا نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی ہے اور متعدد اخبارات نے طنزیہ کارٹون شائع کیے ہیں۔ جن میں ایپ پر پابندی لگانے کی امریکی کوششوں کا مذاق اڑایا گیا۔ گلوبل ٹائمز نے امریکہ پر بدصورت رویہ اپنانے کا کارٹون لگایا اور ایپ کو بند کرنے کیلئے ’’قومی سلامتی‘‘ کا سہارا لینے کا الزام عائد کیا۔

واضح رہے چین میں باقی دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرح ٹک ٹاک پر بھی پابندی عائد ہے۔ تاہم ملک میں صارفین اسی طرح کی ایک ایپ Duoyin استعمال کرتے ہیں۔ جو صرف چین میں دستیاب ہے اور حکومت کی نگرانی اور سنسر شپ کے زیر اثر ہے۔ ٹک ٹاک، بیجنگ میں قائم کیمن آئی لینڈز میں رجسٹرڈ فرم بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے۔ اگر امریکی بل قانون بن جاتا ہے تو بائٹ ڈانس کو چھ ماہ کے اندر اندر ٹک ٹاک فروخت کرنا ہوگا یا امریکی ایپ اسٹورز اور ویب ہوسٹنگ پلیٹ فارمز کی جانب سے پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پچھلے ہفتے ٹک ٹاک نے اپنے بہت سے امریکی صارفین کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے نمائندوں کو کال کریں تاکہ حکومت کو 170 ملین امریکیوں سے آزادی اظہار کا آئینی حق چھیننے سے روکا جا سکے۔ اس کے جواب میں ہاؤس چائنا سلیکٹ کمیٹی کی جانب سے کمپنی کو ایک خط میں کہا گیا کہ وہ ’چینی کمیونسٹ پارٹی کی ایما پر امریکی شہریوں کو ورغلانا اور احتجاج کیلئے اکسانے والی اپنی مہم میں جھوٹے دعوے پھیلانا‘ بند کرے۔ ٹک ٹاک، چین کی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط کی تردید کرتا ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے امریکی ڈیٹا کو امریکہ میں رکھنے کیلئے کمپنی کی تنظیم نو کی ہے۔