اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنی اتحا دکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے، ہم اگر پوری پکچر نہ دیکھ سکیں تو پھر مکمل انصاف کے اختیار کو کیا کرنا ہے؟ہم سب کو پتہ ہے اتنے آزاد امیدوار پی ٹی آئی سے وابستگی دکھا کر کامیاب ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل یہ سادہ اپیل نہیں عوام کے حقوق کا کیس ہے،آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کو قانونی قرار دیں؟چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ انصاف کے اصول کیلیے آئین و قانون پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی،کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ
یہ کوئی پٹواری کی زمین کے تنازع کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل میرے سوال کا جواب دیں،کیا ہم الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کو نظر اندازکردیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں،ہر فیصلے نے آئین کو فالو کیا کچھ ججز دانا ہوں گے میں اتنا دانا نہیں،پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں۔
سیاسی جماعتیں بھی تب مخصوص نشستوں کیلیے اہل ہونگی جب کم از کم ایک سیٹ جیت کر آئی ہوں،اٹارنی جنرل
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ مخدوم علی خان نے بتایا سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزاد امیدواروں کو،سیاسی جماعتیں بھی تب مخصوص نشستوں کیلئے اہل ہونگی جب کم از کم ایک سیٹ جیت کر آئی ہوں۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ آ گیا ہے،2002اور2018میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی ریکارڈ ہے،مخدوم علی خان نے بتایا سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزاد امیدواروں کو،سیاسی جماعتیں بھی تب مخصوص نشستوں کیلئے اہل ہونگی جب کم از کم ایک سیٹ جیت کر آئی ہوں،مخصوص نشستوں سے متعلق 2002میں آرٹیکل 51کو بروئے کار لایا گیا،غیرمسلموں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔
اٹارنی جنرل نے 2018میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ 272مکمل سیٹیں تھیں،3پر انتخابات ملتوی ہوئے،13آزاد امیدوار منتخب ہوئے،9امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا256نشستوں پر نافذ ہوا۔
الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کے ممبران کو تسلیم کر رہا ہے،جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ امیدوار سنی اتحاد کونسل کے ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ڈپٹی رجسٹرار یا رجسٹرار کے خط کو سپریم کورٹ کا مؤقف کیسے تسلیم کیا جا سکتا؟
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ ایک طرف کہا جا رہا الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جو سب کچھ کر سکتا ، اسمبلی سیکرٹریٹ کیساتھ الیکشن کمیشن کی آفیشل خط و کتابت ہے،الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کے ممبران کو تسلیم کر رہا ہے،مخصوص نشستوں کے معاملے پر الیکشن کمیشن مؤقف کیسے بدل سکتا ہے؟
دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہاکہ ایک آئینی شق کو تنہائی میں نہیں پڑھا جا سکتا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ پارلیمانی پارٹی نہیں تو کیا منحرف والی شق نہیں لگے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ پولیٹیکل پارٹی ہی پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی پارٹی کا نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیا،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 63 اے سے ان نوٹیفکیشنز کا تعلق نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آپ کی تشریح مان لیں تو پارلیمان میں بیٹھے اتنے لوگوں کا کوئی پارلیمانی لیڈر نہیں ہوگا؟ مؤقف مان لیا تو کسی کیخلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ہونے پر کارروائی ممکن نہیں ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اب الیکشن کمیشن کا ہی ریکارڈ ان لوگوں کو سنی اتحاد کونسل کا مان رہا ہے، بتائیں نا الیکشن کمیشن انہیں پارلیمانی جماعت مان کر کیسے نشستوں سے محروم کر رہا ہے، الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کو بتا رہا ہے کہ ہمارے ریکارڈ میں یہ پارلیمانی جماعت ہے، یہ ریکارڈ کسی وجہ سے ہی رکھا جاتا ہے ناں؟
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل نہ پارلیمانی جماعت ہے نہ اسے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں، ضمنی الیکشن میں سنی اتحاد کے جو لوگ کامیاب ہوئے ان پر مشتمل پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے، آزاد ارکان سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں بن سکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی صرف آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے لیے ہوتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کر رکھا ہے، ایک سوال مکمل انصاف کے آرٹیکل 187 کے اطلاق کا بھی ہوا تھا، آرٹیکل 187 صرف اس کیسز پر لاگو ہو سکتا جب وہ معاملہ زیر التواء ہو، آرٹیکل 187 کا اطلاق کرکے کوئی نئی عدالتی کارروائی شروع نہیں کی جا سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے بتایا کہ پارلیمانی جماعت والا نوٹیفکیشن جاری کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں تھا، کیا الیکشن کمیشن ازخود کسی امیدوار کو کہہ سکتا کہ وہ آزاد ہے جماعت کا نہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لوگوں کو علم تھا کہ آزاد قرار دیے گئے امیدوار پی ٹی آئی کے ہیں، مکمل انصاف کا اختیار اور کہاں استعمال کرنا ہے جب عدالت پوری تصویر ہی نہ دیکھ سکے، کیا عدالت آنکھیں بند کر لے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیرآئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟ کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی پٹواری کی زمین کا تنازع کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے، نظریہ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے، جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے، کسی جج سے بدنیتی منصوب نہیں کر رہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا عدالت آئین کی سنگین خلاف ورزی کی توثیق کر دے؟ کیا کمرے میں موجود ہاتھی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تین دنوں کی ڈیڈ لائن کو مدنظر رکھیں، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ تین دن تو آزاد اراکین کے پولیٹیکل پارٹی میں شمولیت کے لیے تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے لیے آرٹیکل 63 ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ اس وقت اپیل سن رہی ہے، سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متاثرہ ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کیلئے آرٹیکل 187کا استعمال اس وقت کر سکتی ہے جب وہ معاملہ زیر التوا ہو، سپریم کورٹ براہ راست آرٹیکل 187 کا استعمال نہیں کر سکتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت کسی امیدوار کو آزاد قرار دے سکتا ہے، کیا امیدوار ریٹائرمنٹ بھی لے سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب مکمل انصاف کی طرف جاتے ہیں تو آنکھیں بند نہیں کر سکتے، 84 امیدواروں کو پی ٹی آئی کی وجہ سے ووٹ ملا، کیا ہم آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، اگر ایسا کہہ دیں تو پھر مکمل انصاف کی فراہمی کو ہم نے کہاں لیکر جانا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ دیں جج جب انصاف کرتا ہے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو زندہ کر دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اس طرف سے بہت کچھ کہا گیا، انصاف سب چاہتے ہیں، کوئی پھانسی کے حق میں ہو سکتا ہے اور کوئی مخالف ہوسکتا ہے لیکن انصاف وہ ہے جو آئین و قانون کے مطابق ہو، یہاں مارشل لاء کی توثیق کی بھی توجیہات دی گئیں، جب آئین کو لٹکانا مقصد تھا تو دیگر دروازے کھولے گئے، یہ ہوتا ہے نظریہ ضرورت، پاکستان کو اب آئین پر چلنے دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ہم اپنے سامنے نظر آنے والی آئینی انخراف کو نظر انداز کر دیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ آزادانہ مکمل انصاف کی فراہمی کے لیے آرٹیکل 187 کا اطلاق نہیں کر سکتی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کے پی میں ن لیگ نے 36 نشستیں حاصل کیں انھیں مخصوص 21 نشستیں دی گئیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فارسی کا ایک محاورہ ہے، حصہ بقدر جسہ، یہ سوال زیر بحث ہے کہ نشستیں درست دی گئیں یا نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میرے سوال کا جواب نہیں دیا، جس پر اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کافی سوالات کیے گئے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب نے کہا الیکشن کمیشن کو انکا جواب دینے دیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ جو کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ہر آزاد امیدوار کے لیے تین دن میں سیاسی جماعت میں شمولیت لازمی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا ککہ میرے حساب سے یہ آپشن ہے لیکن لازمی نہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کئی سیاسی جماعتوں کو بونس میں مخصوص نشستیں ملی ہیں، اتنی نشستیں جماعتوں نے لی نہیں جتنی نشستیں انہیں دے دی گئی ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی الیکشن کمیشن کی تشریح سے ہوا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی درخواست مسترد ہوتی تو عدالت آ سکتے تھے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کر لیے۔سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت منگل 9 جولائی تک ملتوی کر دی۔