اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں سے متعلق کوٹہ پالیسی و پیکیجز غیر قانونی قرار دے دیے۔
سرکاری ملازمین کے بچوں کے کوٹہ سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ سامنے آ گیا۔11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس نعیم اخترافغان نے تحریرکیا،جس میں عدالت نے سرکاری ملازمین کے بچوں سے متعلق تمام پالیسیز و پیکیجز سے متعلق کوٹے کو غیر آئینی قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے جی پی او کی اپیل منظورکرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا 2021 کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔ علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے کوٹہ سے متعلق پرائم منسٹر پیکیج فار ایمپلائمنٹ پالیسی اور اس کا آفس میمورینڈم بھی کالعدم قرار دے دیا۔ اسی طرح سندھ سول سرونٹس رولز 1974 کے سیکشن 11 اے کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں حکم دیا کہ وفاق سمیت تمام صوبائی حکومتیں اشتہار یا اوپن میرٹ کے بغیر سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملازمتوں دینے کی پالیسی ختم کریں۔ عدالتی فیصلے کا اطلاق پہلے سے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملنے والے کوٹے پر نہیں ہوگا۔ عدالتی فیصلے کا اطلاق دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے افراد کے قانونی ورثا پر نہیں ہوگا۔
عدالت نے فیصلہ دیا کہ فیصلے کا اطلاق شہدا کے ورثا کو ملنے والے پیکیجز اور پالیسیز پر بھی نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کو بھی کوٹے سے متعلق رولز نرم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اچھا طرز حکمرانی غیر مساوی سلوک اپنا کر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کوٹے کے تحت ملازمتوں کا حصول میرٹ کے برخلاف ہونے کے ساتھ ساتھ امتیازی سلوک بھی ہے۔
واضح رہے کہ محمد جلال نامی شہری نے اپنے والد کے میڈیکل گراؤنڈز پر ریٹائرمنٹ کی بنیاد پر درجہ چہارم کی ملازمت کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جس پر پشاور ہائیکورٹ نے محمد جلال کو کنٹریکٹ پر ملازمت کی ہدایت دی تھی۔ بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جی پی او نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔