تحریک انصاف سیاسی تنہائی کی جانب بڑھ رہی ہے، فائل فوٹو
 تحریک انصاف سیاسی تنہائی کی جانب بڑھ رہی ہے، فائل فوٹو

مذاکرات کے امکانات معدوم ہونے لگے

نواز طاہر:
بانی پی ٹی آئی کی رہائی سمیت مختلف مطالبات کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کے امکانات معدوم ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کے اندر باہمی عدم اعتماد بڑھنا شروع ہوچکا۔ پی ٹی آئی کے سنجیدہ حلقوں کے ساتھ ساتھ مبصرین کا بھی خیال ہے کہ تحریکِ انصاف میں پھوٹ پڑنے کا سلسلہ تیز ہوجائے گا اور کئی رہنما اپنا راستہ الگ کرلیں گے۔ یوں پی ٹی آئی سیاسی اور تنظیمی خلفشار کا شکار رہے گی۔

پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اس وقت ہر کوئی بانی پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں اپنی سیاست چمکانے میں لگا ہوا ہے اور کنفیوژن بڑھانے کا موجب بن رہا ہے۔ ان حالات میں بانی پی ٹی آئی کے خونی رشتہ داروں کے آگے بڑھ کر قیادت سنبھالنے کے وقت کا انتظار کیا جارہا ہے۔ جبکہ اس ضمن میں مختلف اوقات میں ان خونی رشتوں سے ایسا کرنے کی درخواستیں بھی کی جاچکی ہیں۔

واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی کے احتجاج کی ’فائنل کال‘ پر اسلام آباد میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد پی ٹی آئی اور حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل اور مجوزہ نافرمانی تحریک پر پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں میں بھی اختلافِ رائے پایا جارہا ہے۔ جبکہ بانی پی ٹی آئی اپنی جماعت کے رہنمائوں کی پارلیمانی و سیاسی کارکردگی پر ناخوش اور برہم ہیں۔ ان کے اتحادی انہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ساتھ ساتھ کسی جامع منصوبہ بندی کے بغیر نافرمانی تحریک کا اگلا اعلان نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے مختلف قائدین کے مختلف بیانات سے پی ٹی آئی کے عام کارکن سے سنجیدہ حلقوں اور رہنمائوں میں کنفوژن پیدا ہوچکی ہے جس میں روزبہ روز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس کنفیوژن اور مذکرات کی پوزیشن پر پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کرنے والوں کو بنیادی طور پر کچھ معلوم ہی نہیںہے۔ زیادہ تر کوئی اور بات کی جاتی ہے اور بانی پی ٹی آئی کے احکامات پر اپنی دانست کے مطابق عمل کیا جاتا ہے جس سے فائدے کے بجائے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بانی کی رہائی باہر بیٹھے کئی پارٹی رہنمائوں کی سیاسی بقا کے کیلئے خطرہ ہے۔

ان ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی میں کسی کو معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے ؟ فیصلہ کس نے کرنا ہے ؟ اگرچہ تمام فیصلے بانی پی ٹی آئی نے ہی کرنے ہیں لیکن ساتھ ہی لگتا ہے کہ فیصلے کرنے والے ایک سے زیادہ ہیں اور ہر کسی کا فیصلہ الگ الگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے کوئی مستقل لایحہ عمل نہیں بن پاتا اور اپوزیشن اتحادی بھی بد دل ہوتے ہیں جن میں جے یو آئی کو سر فہرست قرار دیا جارہا ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر پارٹی کے ابدر یہی صورتحال برقرار رہی تو دیگر اتحادی بھی یکے بعد دیگرے کہیں چھوڑ کر نہ چلے جائیں۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمیںیہ آف دی ریکارڈ ہی سہی لیکن ماننا پڑے گا کہ جب اتحادیوںکو استعمال کر کے نظر انداز کردیا جائے گا اور ان کی مشاورت و تجاویز کو اہمیت نہیں دی جائے گی تو اس کے نتائج منفی برآمد ہوں گے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ جب آپ ایک جماعت کی قیادت کوپکارتے ہی’ مولانا ڈیزل‘ کے نام سے تھے، تو پھر اتحادی کیوں بنایا؟ اور اگر بنا لیا تو پھر اپنے ساتھ چلانے میں کیوںناکام رہے ؟ کسی کے مشورے کو اہمیت کیوں نہ دی؟

ان ذرائع نے خاص طور پر عسکری اداروں کے بارے میں سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کو افسوسناک قراردیا اور کہا کہ جب ایسی مہم چلائی جائے گی تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ کیا پارٹی کے اندر ایسے لوگ نہیں جو کمپرومائز ڈ ہیں؟ کتنے لوگ ہیںجو یہ کمپرومائز ختم کرسکے ہیں؟ ان ذرائع کی مراد عسکری اداروں سے ریٹائرمنٹ کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں سے ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کس واضح سمیت کے بغیر چل رہی ہے اور اس وقت کوئی بھی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ حقیقی معنوں میں مخلص اور وفادار دکھائی نہیں دیتا۔ سب کو اپنی اپنی سیاسی چمک عزیزہے اور وہ جانتے ہیں کہ جب تک بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں تب تک وہ گرم توے پر پراٹھا پکا سکتے ہیں۔ مذاکرات اور مذاکرات کرنے والوں کی بھی یہی پوزیشن ہے۔ یہ صورتحال اس وقت کنفیوژن میں اضافہ کررہی ہے اور اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک بانی پی ٹی آئی جیل سے رہا نہیں ہوتے۔ ان کی رہائی اور پارٹی کو درست سمت میں چلانے کیلئے ضروری ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے خونی رشتے آگے بڑھ کر قیادت سنبھالیں۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی نے اگر پارٹی کے لوگوں کا کریڈٹ جاننا ہو تو ان کے ظاہری اور مخفی کمپرومائز اور سہولیات کے ساتھ ساتھ مقدمات کی تعداد دیکھ لیں۔ صرف کچھ لوگ اور وکیل ہی پارٹی نہیں چلا سکتے۔ پارٹی چلانے کیلئے سیاسی سوجھ کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں سینئر سیاسی رہنما سید منظور علی گیلانی کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اس وقت صورتحال بھانپ چکے ہیں اور مذاکرات ِ کے ذریعے اپنی نجات چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اتحادی خاص طور پر کچھ سنی تحریک ، مجلس وحدت مسلمین اور پی کے میپ جیسی جماعتیں ساتھ ہی رہیں گی۔ محمود اچکزئی کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کو سول نافرمانی کی تحریک موخر کرنے کا مشورہ دینا بھی فیس سیونگ ہے۔ اتحادی جماعتیں بانی پی ٹی آئی کی فیس سیونگ کرتی رہیں گی۔ مذاکرات کا کھیل چلتا رہے گا نتیجہ کچھ نہیں ہوگا۔ یہ صرف ایک سیاسی کھیل ہے۔