عمران خان :
کسٹم حکام نے نجی پٹرولیم کمپنیوں کے پمپوں پر فروخت ہونے والی اسمگلنگ کی اشیا کے خلاف آپریشن کرنے کے بجائے کمپنیوں کو پیشگی اطلاعات فراہم کردیں، تاکہ انہیں بچنے کا موقع دیا جاسکے۔ کراچی سمیت ملک بھر کے ہائی ویز پر نجی پٹرولیم کمپنیوں کے پمپوں پر کھلنے والے منی مارٹس کی بھرمار ہوگئی ہے۔ ان اسٹوروں پر اربوں روپے مالیت کی غیر ملکی اسمگل شدہ سگریٹس،چاکلیٹس، ٹافیاں، بسکٹ، ڈرائی فروٹس اور الیکٹرونک ایسسریز فروخت ہورہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اس کی اطلاعات ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے حکام کو موصول ہوئیں تو انہوں نے کسٹم کے انفورسمنٹ پریونٹو کلکٹریٹس کو اس کے خلاف کریک ڈائون کی ہدایات دیں۔ تاہم کسٹم ہائوس کراچی میں پریونٹو کلکٹریٹ کے افسران نے عملی طور پر تاحال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی۔
موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور اور دیگر بڑے شہروں کے شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹوں میں اسمگلنگ کا سامان فروخت کرنے والے نیٹ ورک نے نجی پٹرولیم کمپنیوں کے پمپوں کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ مذکورہ پمپوں پر بنے ہوئے منی مارٹس اور اسٹوروں کو چلانے والے اور بعض مقامات پر پٹرول پمپوں کے مالکان اس دھندے میں ملوث ہیں، جس سے پٹرولیم کمپنیوں کی مرکزی انتظامیہ لاعلم ہے۔ تاہم بعض مقامات پر نجی پٹرولیم کمپنیوں کی انتظامیہ میں شامل کالی بھیڑوں کو ساتھ ملایا گیا۔ جس کے لئے انہیں بھاری رشوت دی کمیشن کے طور پر دی جا رہی ہے۔ جس کے ذریعے پمپوں پر منی مارٹ اور دکانیں چلانے کی این او سیز حاصل کرلی جاتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس نیٹ ورک کے لئے اسمگلنگ کا سامان کوئٹہ، پشاور اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے علاوہ بندرگاہوں سے آنے والے سامان کی دستاویزات میں جعلسازی کے ذریعے اسمگل کر کے لایا جا رہا ہے۔
ذرائع کے بقول افغان ٹرانزٹ اس اسمگلنگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت اسی راستے سے چھالیہ کی اسمگلنگ بھی عروج پر ہے، کیونکہ بھارت سے افغانستان آنے والی سگریٹ، ٹن پیک فوڈ آئٹم اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کراچی سمیت ملک بھر میں سپلائی کی جا رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق عمومی طور پر افغانستان میں سیگریٹ ، چاکلیٹ ، ٹافیاں اور ٹن پیک فوڈ آئٹم سمیت الیکٹرونک اسسریز کی کھپت ہمیشہ سے ہی کم رہی ہے۔ کسٹم ذرائع کے بقول ڈائریکٹو ریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت افغانستان کو بہت سی رعایات اور سہولیات حاصل ہیں۔ کراچی کی بندرگاہوں پر افغانستان کیلئے دنیا بھر سے آنے والا سامان بعد ازاں ٹرکوں کے ذریعے افغانستان منتقل کیا جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر افغانستان کے سینکڑوں تاجروں کا سامان اسی طرح سے دنیا بھر سے ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے آتا ہے اور افغانستان سے دنیا بھر کو ہونے والی ایکسپورٹ بھی اسی راستے سے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ہوتی ہے، جسے کراچی کی بندرگاہوں سے ٹرانسشپمنٹ پرمٹ پر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ تاہم افغانستان سے بھارت اور بھارت سے افغانستان کے درمیان پاکستان کے زمینی راستے سے ہونے والی امپورٹ اور ایکسپورٹ انتہائی محدود پیمانے پر ہوتی ہے۔ اس کیلئے پاکستان کسٹم کے ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈ کی جانب سے انتہائی سخت اسکروٹنی کی جاتی ہے۔
اس کے باوجود محدود پیمانے پر ہونے والی تجارت میں سے بھی اسمگلنگ ہونا خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ جس سے ایک جانب قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان ہو رہا ہے اور دوسری جانب اس روٹ سے اسمگلنگ کا سامان بھی پاکستان بھر کے پمپوں کے منی مارٹس میں ڈمپ کردیا جاتا ہے۔ ذرائع سے موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق اس وقت کسٹم کے مختلف شعبوں کی خامیوں اور افسران کی نااہلی کی وجہ سے ٹرانزٹ ٹریڈ روٹ پاکستان کیلئے سالانہ اربوں روپے کی ٹیکس چوری کا ذریعہ بن چکا ہے۔ جس کے تحت روزانہ کی بنیاد پر درجنوں کنسائنمنٹس ٹرانسشپمنٹ پرمٹس لے کر افغانستان اور بھارت کیلئے روانہ تو ہوتی ہیں۔ تاہم اپنی منزل مقصود پر جانے کے بجائے ان میں سے سامان چوری کرکے مقامی مارکیٹوں اور گوداموں میں بھر دیا جاتا ہے۔
دستاویزات کے مطابق اس پر خود ڈائریکٹوریٹ جنرل ٹرانزٹ ٹریڈ کی جانب سے بھی نہ صرف تشویش کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ تحریری طور پر چیف کلکٹر سائوتھ، چیف کلکٹر نارتھ اور چیف کلکٹر سینٹرل کے علاوہ صوبائی کلکٹرز انفورسمنٹ اور اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشنز کو بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ اس معاملے پر سخت اسکروٹنی اور مانیٹرنگ کی ضرورت ہے جس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کیلئے ’’الرٹ‘‘ لیٹرز تک جاری کیا جاچکا ہے۔
کسٹم پائوس کے ایک معتبر ذریعے نے بتایا کہ ملک بھر میں پٹرول پمپوں پر فروخت ہونے والی اسمگلنگ کی اشیا کی اطلاعات ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے حکام کو موصول ہوئیں تو انہوں نے کسٹم کے انفورسمنٹ پریونٹو کلکٹریٹس کو اس کے خلاف کریک ڈائون کی ہدایات دی گئیں۔ تاہم کسٹم ہائوس کراچی میں پریونٹو کلکٹریٹ کے افسران نے عملی طور پر تاحال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی۔ تاہم حیرت انگیز طور پر کسٹم پریونٹو کلکٹریٹ میں بیٹھے ہوئے ان کمپنیوں کے سہولت کاروں نے پھرتیاں دکھانے شروع کردیں اور آپریشن شروع کرنے کے بجائے ان کمپنیوں کو پیشگی آگاہ کرنے کے لئے ایک مراسلہ اے ایس او ہیڈ کوارٹر کے ذریعے تمام پٹرولیم کمپنیوں کی انتظامیہ کے نام پر جاری کروادیا کہ وہ اپنے منی مارٹ اور اسٹوروں سے فوری طور پر اسمگل شدہ سامان ہٹوا دیں۔ بصورت دیگر ان کے خلاف آپریشن شروع کردیا جائے گا۔
ذرائع کے بقول اس مراسلے کے ذریعے پٹرول پمپوں کے مالکان اور منی مارٹس چلانے والوں کو خبردار کرنے کی آڑ میں پیشگی اطلاعات دی گئیں تاکہ اپنا کمیشن وصول کیا جاسکے۔ جبکہ اب بھی ان منی مارٹس پر اسمگلنگ کا سامان فروخت ہورہا ہے اور پمپوں پر وزٹ کرنے والے شہری یہ سامان خرید رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں ہائی ویز اور موٹر ویز پر سفر کرنے والے شہریوں میں پمپوں کے منی مارٹس سے سامان خریدنے کے رجحان میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس سے اس نیٹ ورک کی آمدنی بھی بڑھ گئی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos