نمائندہ امت :
کراچی میں پینے کے پانی کی قلت پوری کرنے کے لیے بائیس برس قبل پلان کیا گیا کے فور منصوبہ خواب بن گیا ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی خود سرکاری حکام بھی یہ یقین دہانی کرانے کے لیے تیار نہیں کہ یہ منصوبہ کب مکمل ہو گا اور کراچی کے عوام کب سیراب ہوں گے۔ تاخیر کے باعث منصوبے کی لاگت 30 ارب روپے سے بڑھ کر 233 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ جن میں سے کینجھر جھیل سے کراچی تک پانی پہنچانے کے تعمیراتی کام کی لاگت میں 22 گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومتی حکام اور انتظامیہ کی نااہلی اور بدانتظامی کے باعث اس منصوبے پر خرچ کیے گئے 14 ارب روپے پہلے ہی مرحلے میں ڈوب چکے ہیں۔ کے فور کے فنکشنل ہونے کے مرحلے تک مذکورہ منصوبے پر مزید 148 ارب روپے خرچ ہونے ہیں۔ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں مذکورہ منصوبے کے لیے 40 ارب روپے مختص کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لیکن اس کے برعکس صرف 3 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
کراچی میں پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے 2002ء میں گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم کے فور کی منصوبہ بندی شروع کی گئی۔ اس وقت یہ تخمینہ لگایا گیا تھا کہ کراچی میں پینے کے پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یومیہ تقریباً ایک ارب 20 کروڑ گیلن پانی کی ضرورت ہو گی جس میں مستقبل کو بھی سامنے رکھا گیا تھا۔ جب یہ منصوبہ بندی کی گئی تھی تو اس وقت کراچی کی آبادی تقریباً سوا کروڑ تھی۔ جو اب تقریباً سوا دو کروڑ ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی تک کراچی کو یومیہ تقریباً 60 کروڑ گیلن پانی فراہم ہورہا ہے جس کے باعث کراچی کی تقریباً آدھی آبادی واٹر سپلائی کے پانی کی سہولت سے محروم ہے۔
کے فور منصوبے کے ساتھ گزشتہ بائیس برس سے بڑے بڑے کھلواڑ ہوتے رہے ہیں اور وہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کے فور منصوبے کے تحت کراچی کو یومیہ مزید 65 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کا منصوبہ تجویز کیا گیا تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں 26 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کے لیے تعمیر ہونے والے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 7 ارب روپے لگایا گیا۔ لیکن مذکورہ منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ ہی پانچ سال تاخیر یعنی 2007ء میں بنی۔ اور یہ منصوبہ وفاق اور سندھ کے درمیان منظوری کے معاملات میں اٹکا رہا۔ بالآخر 2016ء میں منصوبے پر کام کا آغاز ہوا تو مذکورہ منصوبے کی لاگت 7 ارب روپے سے بڑھ کر 25 ارب روپے ہو گئی اور اس وقت سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ اس منصوبے پر ہونے والے اخراجات کا 50، 50 فیصد اخراجات برداشت کریں گے۔ منصوبے کے تکمیل کی مدت دو برس مقرر کی گئی تھی اس کا ٹھیکہ ایف ڈبلیو او کو دیا گیا۔ لیکن 2018ء میں ماہرین نے کے فور منصوبے کی ڈیزائن کو ہی ناصرف ناقص بلکہ ناقابل عمل قرار دیا۔ اس وقت تک مذکورہ منصوبے پر 14 ارب روپے خرچ ہو چکے تھے۔ اس صورت حال میں اس منصوبے کو وہیں پر بند کیا گیا۔ جس کے باعث منصوبے پر خرچ کیے گئے 14 ارب روپے ڈوب گئے۔ بعدازاں مارچ 2020ء میں منصوبے کی تعمیر کی ذمے داری واپڈا کے سپرد کی گئی اور منصوبے کے تعمیر کی لاگت کا تخمینہ 25 ارب سے بڑھا کر 126 ارب روپے کیا گیا۔ لیکن پھر بھی نئے ڈیزائن کے ساتھ منصوبے پر کام کا آغاز اگست 2022ء میں شروع کیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا تھا کہ دسمبر 2024ء میں منصوبے کو مکمل کیا جائے گا۔ بعدازاں وزیراعظم شہباز شریف نے مذکورہ منصوبے پر ہونے والے تمام اخراجات وفاقی حکومت کے ذمے قرار دے کر منصوبہ کو فوری مکمل کرانے کی ذمے داری بھی۔ لیکن وہ خواب ابھی تک ادھورا ہے۔ اس کے ساتھ منصوبے کو مکمل کرنے پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ اب مزید 34 ارب روپے اضافے کے ساتھ 160 ارب روپے لگایا جارہا ہے۔ اس طرح کینجھر جھیل سے کراچی کے ریزرو وائر تک پانی پہنچانے کے7 ارب روپے لاگت سے شروع ہونے والے منصوبے کی لاگت میں 22 گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن پھر بھی کسی کو معلوم نہیں کہ یہ منصوبہ کب مکمل ہو گا۔
مذکورہ منصوبے کی لاگت میں اضافے اور تاخیر پر اب خود حکومتی حکام بھی کھل کر بول رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال 2025-26ء کے بجٹ میں کے فور منصوبے کے لیے حکومت سندھ کو تقریباً 40 ارب روپے مختص کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس کے برعکس جب بجٹ پیش ہوا تو مذکورہ منصوبے کے لیے وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے لیے تقریباً 3 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے۔ وفاق کے اس رویے پر خود وزیراعلیٰ سندھ صوبائی اسمبلی میں چیخ پڑے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا موقف تھا کہ منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے مزید 75 ارب روپے خرچ ہوں گے لیکن وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں صرف سوا تین ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ کا یہ طنز حق بجانب تھا کہ وفاقی حکومت اگر اس طرح فنڈنگ کرے گی تو کے فور کے منصوبے کو مکمل ہونے میں مزید 30 برس لگ جائیں گے۔
کے فور منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت کینجھر جھیل سے یومیہ 26 کروڑ گیلن پانی کراچی میں تین ریزرو وائر پپری، تیسر ٹائون اور ناردرن بائی پاس پر پہنچ بھی گیا تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ پانی عوام تک پہنچ گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ وہاں سے پانی شہر کی واٹر سپلائی کے سسٹم میں پہنچانا ہے۔ جس کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپرومنٹ پروجیکٹ کے تحت آگمینٹیشن کا منصوبہ تعمیر ہونا ہے۔ 25 کروڑ 60 لاکھ ڈالر یعنی تقریباً 73 ارب روپے لاگت کے مذکورہ منصوبے کے لیے عالمی بینک فنڈنگ کررہی ہے۔ واضح رہے کہ ابتدا میں مذکورہ منصوبے کی تخمینی لاگت بیس ارب روپے تھی۔ اس پر ہونے والے تمام اخراجات حکومت سندھ کے ذمے ہیں۔ لیکن ابھی تک مذکورہ منصوبے کے ٹینڈر تک نہیں ہوئے ہیں۔ اور مذکورہ منصوبہ عملی طور پر ابھی بھی کاغذوں تک محدود ہے۔ خود متعلقہ حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ فوری طور پر اگر مذکورہ منصوبے پر کام کا آغاز ہو بھی جائے تو پھر بھی کے فور کے تحت آنے والا پانی عوام کے گھروں تک پہنچانے میں مزید چار سال لگ جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ چار سال کا دعویٰ متعلقہ انتظامیہ کا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کا جو حشر ہوا ہے اس کے ماضی کو مدنظر رکھیں تو اس بات کا کوئی اتا پتا نہیں ہے کہ یہ منصوبہ کب مکمل ہو گا۔ دریں اثنا بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کے فور منصوبے کے تحت کراچی کو جو 65 کروڑ گیلن پانی ملنا ہے اس کے تحت پہلے مرحلے میں 26 کروڑ گیلن پانی پہنچانے کا منصوبہ 22 سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکا ہے تو باقی مزید دو مرحلوں میں 39 کروڑ گیلن پانی کراچی پہنچانے میں کتنا عرصہ لگے گا اور جب یہ پانی کراچی پہنچ جائے گا تو اس وقت کراچی کی آبادی کتنی ہو جائے گی جس سے لگتا ہے کہ کراچی میں پینے کے پانی کی ضرورت پوری کرنے کا خواب پورا شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos