بڑی پیش رفت:حماس کے بعد اسلامی جہاد کا بھی ردعمل آگیا

فلسطینی اسلامی جہاد نے حماس کے جواب کا خیر مقدم کرتے ہوئے امریکی امن منصوبے کی بھرپور حمایت کر دی ہے، جس سے غزہ میں جنگ بندی کی نئی امیدیں جنم لے رہی ہیں۔

اسلامی جہاد، جو حماس کی اتحادی مزاحمتی تنظیم ہے اور کچھ اسرائیلی یرغمالی بھی اس کے قبضے میں ہیں، نے کہا کہ حماس کا ردعمل تمام فلسطینی مزاحمتی دھڑوں کے مؤقف کی نمائندگی کرتا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، تنظیم نے اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے مشاورت میں اہم کردار ادا کیا۔

حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے کچھ نکات قبول کیے ہیں، جن میں جنگ بندی، اسرائیلی افواج کا انخلا اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روکنے کی ہدایت دی ہے.

غزہ کے شہری اس پیش رفت پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ 32 سالہ فلسطینی سعود نے کہا، "یہ خوشخبری ہے جس سے زندگیاں بچیں گی، ہم بہت تھک گئے ہیں۔” تاہم یروشلم کے جمال شہادہ نے خبردار کیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کسی بھی وقت منصوبے کو سبوتاژ کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب، اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) نے فلسطینیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ شہر کی طرف نہ لوٹیں کیونکہ شمالی علاقہ اب بھی جنگی زون ہے۔ آئی ڈی ایف کے عربی ترجمان کرنل اویچے ادرائی نے کہا کہ فوجی دستے کئی مقامات پر موجود ہیں اور شہریوں کے لیے واپسی انتہائی خطرناک ہے۔

یہ صورتحال اس وقت مزید نازک ہو گئی ہے جب ایک طرف فلسطینی مزاحمتی دھڑے امریکی امن منصوبے پر متفق ہو رہے ہیں اور دوسری جانب اسرائیلی اقدامات خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔