محمد قاسم :
خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی نے گورنر کی جانب سے گنڈا پور کے استعفیٰ کی منظوری کا انتظار کئے بغیر سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ منتخب کرلیا گیا۔ نئے وزیراعلیٰ کی تقریر سے ایسا لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اب اداروں کے ساتھ تصادم کے راستے پر مزید تیزی سے چل نکلی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ سہیل آفریدی کو اصل میں وزیراعلیٰ لانے کا بنیادی مقصد کیا تھا ۔
ذرائع نے بتایا کہ عمران خان، علی امین گنڈا پور سے کہہ رہے تھے کہ وہ فوجی آپریشن رکوائیں تاکہ صوبے کے حالات کی بنیاد پر وفاقی حکومت اور فوج کو کمزور دکھایا جا سکے ا ور اصل منصوبہ مراد سعید نے بنایا ہے کہ سول پاور ایکٹ کی واپسی کے ساتھ فوج کے پاس اضلاع میں انفارمیشن بیسڈ آپریشن کے اختیارات نہیں ہوں گے جس سے بنوں، کرک ، ڈی آئی خان اور کرم میں پولیس کالعدم ٹی ٹی پی کے رحم و کرم پر ہو گی اور کالعدم ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی کے بیرون ملک بیٹھے سوشل میڈیا کے ذریعے وفاقی حکومت اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے گا کہ ٹی ٹی پی نے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے اور پاکستانی حکومت اور فوج کالعدم ٹی ٹی پی کے سامنے بے بس ہے اور دہشت گرد بین الاقوامی اداروں اور برادری کے لئے خطرہ ہیں۔ اور یہی سہیل آفریدی کو لانے کا بنیادی مقصد ہے۔
سہیل آفریدی کی حلف برداری اب ایک تنازعہ کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور اگر اپوزیشن پشاور ہائیکورٹ کا رخ کرلیتی ہے تو یہ حلف برداری کئی ہفتوں تک تاخیر کا شکار ہوگی۔ تاہم سہیل آفریدی نے جس طرح اسمبلی کے فلور پر قومی اداروں کے خلاف توہین آمیز گفتگو کی تو اس سے ایسا معلوم ہورہا ہے کہ وفاقی حکومت سہیل آفریدی کو اہم قومی معاملات میں مدعو نہیں کرے گی اور خیبرپختونخوا مزید پسماندگی کا شکار ہو جائے گا۔ کیونکہ صوبائی حکومت کے نئے وزرا اگر مراد سعید کے کہنے پر لئے جاتے ہیں تو وہ بھی محاذ آرائی کی طرف جا سکتے ہیں جس کے بعد خیبرپختونخوا میں حالات خراب ہونے کا خدشہ ہے اور اگر حالات خراب ہو جاتے ہیں تو پھر اس صوبے میں گورنر راج کا بھی امکان بڑھ جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ سہیل آفریدی کے مخالف پی ٹی آئی گروپ علی امین گنڈا پور نے مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا لطف الرحمان کو اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ کے لئے نمائندہ نامزد کرنے پر نا صرف سہیل آفریدی کی کھل کر حمایت کی، بلکہ اسمبلی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ کیونکہ علی امین گنڈا پور کسی قیمت پر بھی مولانا لطف الرحمان کو وزیراعلیٰ نہیں دیکھنا چاہتے۔ تاہم اصل سوال حلف اٹھانے کے بعد وزرا کی تقرری اور اہم بیوروکریسی کی تعیناتی ہے۔
پی ٹی آئی میں اب وزارتوں پر اختلافات کا خدشہ ہے تاہم مراد سعید نے کئی وزرا کے نام فائنل کر دیئے ہیں۔ تاہم اس سب کا انحصار آئندہ چند دنوں میں نئی کابینہ کے وزرا کے نام سامنے آنے کے ساتھ ساتھ آئی جی پولیس ذوالفقار حمید کو اپنے عہدے پر رکھنے یا نہیں کے بعد ہے۔ کیونکہ ذوالفقار حمید نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے حکم کے باوجود ایمل ولی خان کو سیکورٹی دینے سے معذرت ظاہر کی تھی ۔ نئے وزیراعلیٰ کے لئے سب سے اہم چیلنج صوبے میں جاری بد امنی کو کنٹرول کرنا ، بڑھتی ہوئی مہنگائی ، آٹے کی قیمتوں میں اضافہ، بیروزگاری ، فوجی آپریشن اور عمران خان کی رہائی کے لئے دوبارہ کوششیں کرنا شامل ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos