امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، جو "نو کنگز” تحریک کے تحت منعقد کیے گئے۔ مظاہرے نیویارک، واشنگٹن، شکاگو، لاس اینجلس اور دیگر 2,700 سے زائد مقامات پر ہوئے، جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مظاہرین نے صدر ٹرمپ کو آمریت اور جابرانہ حکمرانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب امریکی وفاقی حکومت شٹ ڈاؤن کی لپیٹ میں ہے اور بجٹ پر ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے درمیان شدید تعطل پایا جا رہا ہے۔
🔴 امریکہ کے کئی شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ pic.twitter.com/7mA8ocDfw5
— RTEUrdu (@RTEUrdu) October 19, 2025
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق ملک بھر میں ہزاروں احتجاجی مظاہرے ہوئے، جن میں لوگ غبارے، رنگین لباس اور مجسمے لے کر سڑکوں پر نکلے۔ مظاہروں میں ہر عمر اور طبقے کے افراد، والدین اپنے بچوں کے ساتھ، ریٹائر افراد اور پالتو جانوروں کے ساتھ شریک ہوئے۔ زیادہ تر جگہوں پر پرامن احتجاج ہوا اور کوئی سنگین قانون شکنی کی رپورٹ نہیں ملی۔
نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں 100,000 سے زائد افراد نے حصہ لیا، جبکہ سیئٹل میں مظاہرین کی ایک میل لمبی پریڈ نکالی گئی جس میں 25,000 سے زائد افراد شامل تھے۔
احتجاجی منتظمین، بشمول "انڈیویزیبل” کی شریک بانی لیہ گرین برگ، کا کہنا تھا کہ مظاہرے امریکی اقدار کا حصہ ہیں، اور یہ کہ "ہمیں بادشاہ نہیں چاہیے”۔ مظاہروں کا مقصد ٹرمپ کی حکومتی پالیسیوں کو چیلنج کرنا اور جمہوری اصولوں کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔
واشنگٹن ڈی سی میں مظاہرین نے یو ایس کیپٹل کی طرف مارچ کیا، امریکی پرچم اور غبارے لے کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ ڈیموکریٹ رہنما چَک شومر اور سینیٹر برنی سینڈرز نے بھی مظاہروں میں شرکت کی اور عوامی طاقت کو آمریت کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت قرار دیا۔
دوسری جانب ریپبلکن رہنماؤں نے مظاہرین کو ‘مارکسسٹ’ قرار دیا اور کہا کہ مظاہرے امریکی حکومت کے شٹ ڈاؤن کو طول دے رہے ہیں۔ اسپیکر مائیک جانسن نے انہیں ‘ہیٹ امریکا ریلیز’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مظاہرین سرمایہ داری اور امریکی اقدار سے نفرت کرتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos