فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں خطرناک اضافہ

نئی دہلی: عالمی انسانی حقوق کی تنظیم *ایمنسٹی انٹرنیشنل* کی سالانہ رپورٹ نے بھارت میں 2025 کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن، مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور سیاسی مخالفین پر دباؤ میں خطرناک اضافے کا انکشاف کیا ہے۔ یہ رپورٹ ستمبر 2025 تک کے واقعات پر مبنی ہے اور ایمنسٹی کے عالمی انسانی حقوق کے جائزے کا حصہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق، *جنوری میں اتراکھنڈ* میں ’’یکساں سول کوڈ‘‘ مذہب کی تبدیلی کی آڑ میں شادیوں کے انسداد کے لئے نافذ ہوا تاہم یہ قانون کسی باضابطہ کمیٹی کی رپورٹ کے بغیر ہی منظور کر لیا گیا۔

فروری میں راجستھان نے مذہب کی تبدیلی کے بعد ہونے والی بین المذاہب شادیوں کو جرم قرار دیتے ہوئے دس سال قید کی سزا تجویز کی۔ اسی ماہ مہاراشٹر میں بھی بین المذاہب شادیوں کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ اسی مہینے مہاراشٹر کے ضلع ملون میں ایک مسلمان نوجوان کے والد کی دکان اس الزام پر مسمار کر دی گئی کہ اس کے بیٹے نے پاک-بھارت کرکٹ میچ کے بعد کوئی نعرہ لگایا تھا۔

مارچ میں پولیس نے مزاحیہ فنکار کنال کامرا کے خلاف ان کے شو نیا بھارت پر مقدمہ درج کیا، جب کہ *جامعہ ملیہ اسلامیہ* کے 12 طلبہ کو احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ اسی مہینے *آسام* میں صحافی *دلوار حسین مجمدار* کو بدعنوانی پر رپورٹنگ کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔

اپریل میں لکھنؤ پولیس نے لوک گلوکارہ *نہا سنگھ راٹھور* کے خلاف ایک تبصرے پر مقدمہ دائر کیا، جب کہ *مئی* میں بھارت نے کشمیری نژاد برطانوی ماہرِ تعلیم *نتاشا کول* کی شہریت منسوخ کر دی۔ اسی ماہ *پشپا ستیھدار* اور دو دیگر افراد پر فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے پڑھنے کے جرم میں مقدمہ قائم کیا گیا۔

اپریل تا مئی کے دوران مسلمانوں پر *184 نفرت انگیز حملوں* کی اطلاع ملی، جب کہ آسام میں ’’آپریشن سندور‘‘ سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس پر درجنوں افراد کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے۔

جون میں بھارتی حکومت نے طنزیہ انسٹاگرام پیج دی ساولا وڈا بند کر دیا، جب کہ ممبئی پولیس نے فلسطین کے حق میں ریلی نکالنے والے 19 افراد کو گرفتار کیا۔

جولائی میں بھارت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر 2000 سے زائد اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حکم دیا، جن میں دو *روئٹرز نیوز* کے بھی شامل تھے۔ اسی ماہ *مہاراشٹر* میں نیا ’’پبلک سیکیورٹی ایکٹ‘‘ نافذ کیا گیا جس کے ذریعے اختلافِ رائے کو جرم قرار دیا گیا۔

اگست میں کشمیر میں 25 کتابیں ممنوع قرار دی گئیں جن کے مصنفین صحافی، محقق اور امن کے علمبردار تھے۔ اسی ماہ *گوہاٹی پولیس* نے معروف صحافی *کرن تھاپر* اور *سدھارتھ وردراجن* کو بغاوت کے مقدمے میں طلب کیا۔

اسی طرح ستمبر میں بھارت نے پناہ گزینی سے متعلق چار قوانین منسوخ کر کے تمام پناہ گزینوں کو ’’غیر قانونی مہاجر‘‘ قرار دے دیا۔ رپورٹ کے مطابق، آسام میں سیکڑوں روہنگیا مسلمانوں کو زبردستی سمندر کے راستے میانمار واپس دھکیلا گیا، جب کہ پہلگام واقعہ کے بعد 300 مسلمانوں کو بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔

ایمنسٹی کے مطابق، بھارت میں درجنوں انسانی حقوق کے کارکن اور طلبہ رہنما، جن میں *عمر خالد* بھی شامل ہیں، تاحال بغیر مقدمے کے قید میں ہیں۔ عمر خالد پر الزام ہے کہ وہ *فروری 2020* میں دہلی فسادات میں ملوث تھے جن میں *53 افراد ہلاک* ہوئے، جن میں سے *38 مسلمان* تھے۔

اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی بھارت کی صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے بھارت میں انسانی حقوق کے محافظوں اور آزاد صحافیوں کے خلاف سخت قوانین اور ہراسانی کے باعث ہونے والی من مانی گرفتاریوں اور محدود شہری آزادیوں پر تشویش ہے، جس میں کشمیر کی صورتحال بھی شامل ہے۔‘‘ انہوں نے منی پور میں تشدد اور نقل مکانی کے مسئلے کے حل کے لیے ’’مکالمے، امن سازی اور انسانی حقوق کے احترام‘‘ پر مبنی اقدامات پر بھی زور دیا۔

دوسری جانب بھارت نے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سرکاری نشریاتی ادارے دوردرشن پر خبر نشر کی جس کا عنوان تھا”بھارت نے کشمیر اور منی پور پر اقوامِ متحدہ کے بے بنیاد تبصرے کو مسترد کر دیا”۔