برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یورپ میں افغان طالبان کے نام پر جعلی دھمکی آمیز خطوط فروخت کیے جا رہے ہیں، جنہیں افغان شہری مغربی ممالک میں پناہ (Asylum) حاصل کرنے کے لیے بطور ثبوت استعمال کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بعض بدعنوان افغان حکام پیسوں کے عوض ایسے جعلی خطوط تیار کرتے ہیں جن پر طالبان حکام کے دستخط اور مہر بھی موجود ہوتی ہے۔ یہ خطوط پناہ گزین اپنی درخواستوں کے ساتھ جمع کرواتے ہیں تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ افغانستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔
*دی ٹیلی گراف* کے رپورٹر نے ایک اسٹنگ آپریشن کے دوران 40 پاؤنڈ (تقریباً ساڑھے 3 ہزار افغانی) میں ایسے جعلی خطوط خریدے جن میں طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر “موت کی دھمکیاں” درج تھیں۔ ان خطوط میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ متعلقہ شخص نے برطانوی حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے، اس لیے اسے سزا دی جائے گی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان جعلی خطوط میں اکثر اس ملک کا نام بھی شامل ہوتا ہے جہاں پناہ کی درخواست دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 200 پاؤنڈ (تقریباً ساڑھے 17 ہزار افغانی) کے “پریمیئم” خطوط بھی فروخت ہو رہے ہیں جن پر طالبان کی جعلی مہر اور دستخط ہوتے ہیں، تاکہ ان کے منظور ہونے کے امکانات زیادہ ہوں۔
رپورٹ کے مطابق اس جعلسازی کے باعث حقیقی افغان پناہ گزینوں کے کیسز متاثر ہو رہے ہیں۔ صرف 2022 میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہریوں نے برطانیہ میں پناہ کے لیے درخواست دی تھی، جن میں سے متعدد درخواستوں کو مشکوک قرار دیا گیا۔
طالبان کے ایک اہلکار نے *دی ٹیلی گراف* کو بتایا کہ بعض مقامی طالبان ایسے جعلی خطوط خود تیار کرتے ہیں، جو ایک غیرقانونی عمل ہے، اور اگر وہ پکڑے گئے تو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب یورپی یونین نے حال ہی میں افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کے لیے طالبان حکومت سے رابطے شروع کیے ہیں۔ بیس یورپی ممالک نے یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ براہ راست بات چیت کر کے ان پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جائے جن کی اسائلم درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos