ٹرمپ کی خوشنودی کیلئے اسلامی ملک ابراہام اکارڈز میں شامل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ مسلم اکثریتی ملک قازقستان ابراہام اکارڈز میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس کے تحت اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لایا گیا تھا۔

یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو اور قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔

قازقستان کی حکومت نے بھی ایک بیان میں کہا، “ابراہام اکارڈز میں شمولیت ہمارے خارجہ پالیسی کے اس مستقل اصول کا تسلسل ہے جو مکالمے، باہمی احترام اور علاقائی استحکام پر مبنی ہے۔”

قازقستان نے اسرائیل کے ساتھ 1992 میں باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے، جو اس کے سوویت یونین سے آزادی کے فوراً بعد کا دور تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی دوطرفہ معاہدے موجود ہیں، جب کہ نیتن یاہو نے 2016 میں قازقستان کا سرکاری دورہ بھی کیا تھا۔

دن کے آغاز میں مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے عندیہ دیا تھا کہ ایک نیا ملک ابراہام اکارڈز میں شامل ہونے والا ہے، تاہم اس وقت انہوں نے ملک کا نام ظاہر نہیں کیا تھا۔

ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب وہ خود کو ایک ’’امن ساز‘‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، حالانکہ غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں پر عالمی سطح پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔

الجزیرہ ٹی وی کے مطابق قازقستان اپنے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ صدر توقایف کے واشنگٹن کے دورے کے دوران دونوں ممالک نے معدنی وسائل پر تعاون کے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے۔

ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں ابراہام اکارڈز کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے تھے۔ ان معاہدوں نے عرب دنیا کے اُس مشترکہ مؤقف کو توڑ دیا تھا جو 2002 کے عرب امن منصوبے کے تحت اسرائیل کی تسلیم شدگی کو فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط کرتا تھا۔

نیتن یاہو اس اصول — ’’زمین کے بدلے امن‘‘ — کو مسترد کر چکے ہیں اور انہوں نے ایسے معاہدوں کی راہ ہموار کی جن میں فلسطینیوں کو نظر انداز کیا گیا۔

ابراہام اکارڈز کے تحت تعلقات میں بہتری کے باوجود غزہ میں دو سالہ جنگ کے دوران اسرائیل کے حملوں میں 68 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے، مگر معاہدے میں شامل ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی اور سکیورٹی تعلقات برقرار رکھے۔

ٹرمپ نے حالیہ مہینوں میں بارہا امید ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب بھی ابراہام اکارڈز میں شامل ہوگا، تاہم ریاض کے حکام مسلسل اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ وہ عرب امن منصوبے پر قائم ہیں۔